1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتنیپال

روزگار کی کمی کے سبب نیپالی نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور

مقبول ملک ،  اے ایف پی کے ساتھ
21 ستمبر 2025

نیپال میں، جہاں بدعنوانی اور بے روزگاری کے خلاف زیادہ تر نوجوان نسل کے حالیہ پرتشدد مظاہروں میں درجنوں افراد مارے گئے، روزگار کے مواقع کی کمی کے سبب بہت سے نوجوان ملازمتوں کی تلاش میں بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں۔

نیپال میں نوجوانوں کے احتجاجی مظاہرے
نیپال میں نوجوانوں کے حالیہ وسیع تر احتجاجی مظاہرے کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف اور سوشل میڈیا پر پابندی کے باعث شروع ہوئے تھےتصویر: Diwakar Rai/DW

جنوبی ایشیا میں ہمالیہ کی اس ریاست میں پھارپنگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نیپال میں حالیہ وسیع تر عوامی مظاہروں کے نتیجے میں کھٹمنڈو میں اُس وقت کی ملکی حکومت بھی مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئی تھی۔ لیکن ملک کے دیہی علاقوں کے سنتوش سونار جیسے باشندوں کی رائے میں نیپال میں گزشتہ ہفتوں کے دوران جو کچھ بھی ہوا، وہ ان دیہی نوجوانوں کی جدوجہد کی عکاسی بھی کرتا تھا، جو آج بھی مقامی سطح پر حالات سے ناامید ہو کر روزگار کے بہتر مواقع کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

انفرادی سطح پر مشکل اقتصادی صورت حال

سنتوش سونار کی عمر 31 برس ہے اور وہ بے روزگار ہیں۔ لیکن وہ بڑی شدت سے اپنے لیے کسی نہ کسی ملازمت کی تلاش میں بھی ہیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ جس دن انہیں اپنے آبائی علاقے سے باہر کوئی ملازمت مل گئی، اس دن ان کا خاندان مزید تقسیم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ تب سونار کو اپنی بیٹی کو اپنی والدہ کے پاس چھوڑ کر وہاں جانا ہو گا، جہاں انہیں نیا روزگار ملے گا اور ان کی اہلیہ تو ملازمت ہی کے سلسلے میں پہلے ہی بیرون ملک مقیم ہیں۔

احتجاجی مظاہروں میں درجنوں افراد مارے گئے تھےتصویر: Prabin Ranabhat/AFP

اس نیپالی نوجوان کی رہائش ملکی دارالحکومت کھٹمنڈو کے مضافات میں ایک دیہی بستی میں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''یہاں تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔‘‘

پریشان کن بات یہ ہے کہ ان مسائل کا سامنا اکیلے صرف سنتوش سونار ہی کو نہیں، بلکہ ان کی طرح نیپال میں لاتعداد نوجوان ایسے ہیں جو حصول تعلیم کے بعد اپنے لیے کسی نہ کسی ذریعہ معاش کی مسلسل تلاش میں ہیں مگر ان کی اس جدوجہد کے اب تک کے نتائج ناامید کر دینے والے ہی ہیں۔

نیپال میں افرادی قوت سے متعلق ورلڈ بینک کے اعداد و شمار

بھارت کی ہمسایہ ریاست نیپال سے متعلق ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں 15 سے 24 برس تک کی عمر کا ہر پانچواں نوجوان بے روزگار ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ملکی افرادی قوت کا 82 فیصد حصہ کوئی نہ کوئی بے ضابطہ ملازمت کر رہا ہے۔

بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے نیپالی مظاہرین نے کئی سرکاری املاک کو آگ بھی لگا دی تھیتصویر: Niranjan Shrestha/AP Photo/picture alliance

یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ کی اس ریاست کی مجموعی قومی پیداوار میں عام کارکنوں کا فی کس حصہ صرف 1,447 امریکی ڈالر سالانہ کے برابر بنتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ان حالات میں جب عام نیپالی کارکنوں کو اندرون ملک اپنے لیے روزگار کے کوئی مواقع نظر نہیں آتے، تو وہ بیرون ملک جانے کا سوچتے ہیں۔ ایسے نیپالی شہریوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے۔

جہاں تک بیرون ملک سے نیپالی باشندوں کی اپنے وطن بھیجی جانے والی رقوم کا تعلق ہے، تو وہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباﹰ ایک تہائی بنتی ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کی طرف سے سالانہ ترسیلات زر کی مجموعی قومی پیداوار میں بہت اونچی شرح کے حوالے سے نیپال دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔

دس ستمبر کے روز کھٹمنڈو میں حفاظتی گشت کرتے نیپالی فوجی دستےتصویر: Navesh Chitrakar/REUTERS

نیپالی افرادی قوت کا عام طور پر کتنا بڑا حصہ بیرون ملک کام کرتا ہے، اس کا کسی حد تک اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پھارپنگ میں ہر دوسرے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد سمندر پار رہتا اور کام کرتا ہے۔

’ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘

پھارپنگ کے رہائشی سنتوش سونار کی اہلیہ کا نام امریتا ہے اور ان کی عمر 22 برس ہے۔ وہ متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں ویٹرس کے طور پر کام کرتی ہیں۔ سنتوش سونار نے، جو ماضی میں ٹیکنالوجی کے مرکز بھارتی شہر بنگلورو میں کام کر چکے ہیں، نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''میں اور میری بیوی ایک دوسرے کو واقعی بہت مس کرتے ہیں۔‘‘

سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی، درمیان میں، جو اب نیپال کی عبوری وزیر اعظم ہیںتصویر: Skanda Gautam/SOPA Images/ZUMA/picture alliance

سونار نے کہا، ''یہ بہت ہی مشکل وقت ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنی بیوی سے دور رہے۔ پھر یہ سوچنا تو اور بھی تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ جب مجھے کوئی جاب مل گئی، تو مجھے بھی اپنی چھوٹی سی بیٹی اور والدہ کو چھوڑ کر جانا ہو گا۔ لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘

حکومتی ڈیتا کے مطابق صرف گزشتہ برس ہی 30 ملین کی مجموعی آبادی والے نیپال سے مزید 839,000 باشندے روزگار کی خاطر ملک سے باہر چلے گئے۔

حالیہ خونریز عوامی مظاہروں اور حکومتی تبدیلی کے بعد ملک کی 73 سالہ سابقہ چیف جسٹس سوشیلا کارکی اب ملک کی عبوری وزیر اعظم کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ نیپال کی اس پہلی خاتون سربراہ حکومت نے اپنے لیے جو سیاسی ایجنڈا طے کیا ہے، اس میں تقریباﹰ ہر جگہ پائی جانے والی بدعنوانی اور وسیع تر بے روزگاری دونوں کا خاتمہ سرفہرست ہے۔

ادارت: افسر اعوان

نیپالی نوجوان روسی فوج میں کیوں بھرتی ہو رہے ہیں؟

03:56

This browser does not support the video element.

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں