1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیرس میں مکالمت

Afsar Awan4 ستمبر 2012

یورپ بھر سے مسلمان اور یہودی رہنما بین المذاہب رواداری کے حوالے سے مکالمت کے لیے آج پیرس میں جمع ہو رہے ہیں۔ امید کی جاری ہے کہ گزشتہ ہفتے برلن میں ایک ربی پر ہونے والا حملہ اس ملاقات میں اہم موضوع رہے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

یورپی یہودیوں کی کانگریس کے صدر موشے کنٹور یہودی اور مسلم رہنماؤں کی اس دوسری ملاقات میں شرکاء کو پیرس میں خوش آمدید کہیں گے۔ ان کا کہنا ہے: ’’اگر مسلمانوں کی مسجد یا یہودیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوتا ہے یا پھر کسی مسلمان اور یہودی پر حملہ ہوتا ہے تویہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔‘‘

آج منگل چار ستمبر سے شروع ہونے والی اس دو دورہ میٹنگ میں یورپ کے 18 ممالک سے 80 سے زائد مسلم اور یہودی رہنما باہمی مسائل اور تحفظات پر غور وخوض کریں گے۔ اس میٹنگ میں جرمنی میں بچوں کے ختنوں پر جاری بحث کے علاوہ بعض یورپی ممالک میں کوشر یا حلال گوشت کے حصول کے لیے ذبیحہ پر لگائی جانے والی پابندی پر بھی بات ہوگی۔

برلن کے میئر کلاز ووویرائٹ نے اس حملے کے بعد مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے بطور استعارہ یارمکا پہننا شروع کر دی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

گزشتہ ہفتے جرمن دارالحکومت برلن میں ایک ربی پر ہونے والا حملہ بھی اس ملاقات میں ایک اہم موضوع ہوگا۔ اسی باعث مذہبی منافرت، یہودی مخالفت اور اسلاموفوبیا یعنی اسلام سے متعلق خوف اس میٹنگ کے ایجنڈے پر ہوں گے۔

موشے کنٹور نے مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’کل یہ یہودیوں کے ساتھ ہوا، آج مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور آنے والے کل میں یہ مسیحیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔‘‘

’’ہمیں سبق کی ضرورت نہیں ہے‘‘

برلن میں ربی پر حملے کے نتائج دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج کو وسیع کر سکتے ہیں۔ ابھی تک حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا تاہم پولیس کو جن لوگوں کی تلاش ہے وہ مبینہ طور پر عرب ہیں۔ اگر ان کا مسلمان یا عرب ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو پیرس میں ان دونوں مذاہب کے رہنماؤں میں گرما گرم بحث ہو سکتی ہے۔

اتوار دو ستمبر کو برلن میں قریب 1500 افراد نے یہودی ربی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک ریلی نکالیتصویر: picture alliance / dpa

اس اندیشے کی ایک چھوٹی سی مثال جرمنی کے یہودیوں کی مرکزی کونسل کے چیئرمین ڈیٹر گراؤمان اور جرمنی میں مسلمانوں کی کوآرڈینیٹنگ کونسل کے سربراہ علی کِزلکایا کے درمیان ہونے والی بیان بازی ہے۔ حملے کے تناظر میں گراؤمان کی جانب سے ایک اخباری انٹرویو میں مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہودی مخالف جذبات پر قابو پانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ اس کے جواب میں کِزلکایا کا کہنا تھا: ’’مسلمانوں کو اس حوالے سے سبق کی ضرورت نہیں ہے۔ سامی مخالفت اسلام کے مطابق نہیں ہے۔‘‘

کِزلکایا کا کہنا تھا کہ جب سامی مخالفت کی بات ہوتی ہے تو پھر اسلام مخالفت پر بھی بات ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس حوالے سے یہودی کمیونٹی سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔

جرمنی میں سامی مخالفت

جرمنی میں مسلمانوں کی طرف سے مذہبی بنیادوں پر یہودیوں پر پر تشدد حملے کی روایت نہیں رہی۔ تاہم برلن میں یہودی ربی پر ہونے والے حملے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ربی نے یہودیوں کی مخصوص ٹوپی یارمکا یا کِپہ (Yarmulke / Kippah) پہن رکھی تھی۔

برلن کے میئر کلاز ووویرائٹ نے اس حملے کے بعد مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے بطور استعارہ یارمکا پہننا شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے ووویرائٹ کا کہنا ہے: ’’ ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ یہودی یارمکا پہن سکیں اور دوسرے اپنی پگڑی‘‘

اتوار دو ستمبر کو برلن میں قریب 1500 افراد نے یہودی ربی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک ریلی نکالی۔ اس ریلی میں مسلمان اور یہودی دونوں مذاہب کے پیروکار شریک ہوئے۔

Dirk Kaufmann/aba/ng

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں