یہودیوں کا قتل عام: پولینڈ معافی کا طلبگار
11 جولائی 2011پولینڈ میں دس جولائی سن 1941 کے روز نازی جرمن فوجی دستوں کی مداخلت کے ساتھ ہی Jedwabne کے علاقے میں مقامی یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس المناک واقعے کے 70 برس پورے ہونے کے موقع پر مشرقی پولینڈ میں اسی مقام پر منعقد ہونے والی ایک مرکزی یادگاری تقریب میں پہلی مرتبہ پولینڈ میں کیتھولک کلیسا کے اعلیٰ نمائندے بھی شامل ہوئے۔
اس موقع پر یادگاری تقریب میں پولستانی صدر کوموروفسکی کا ایک خصوصی خط بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ اپنے اس خط میں پولستانی سربراہ مملکت نے کہا کہ پولش قوم کو لازمی طور پر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ سات عشرے قبل اس کا کردار ایک مجرم کا تھا۔ اپنے اس خط میں صدر کوموروفسکی نے لکھا، ’’جمہویہ پولینڈ میں اس کے شہریوں کی کبھی بھی دھیمی نہ ہونے والی آواز میں کی جانے والی یہ درخواست ہر کوئی سن سکتا ہے کہ پولستانی قوم ایک بار پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور معافی کی طلبگار ہے۔‘‘
ان دنوں یورپی یونین کے صدر ملک پولینڈ میں ٹھیک سات عشرے قبل، دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی فوجی دستوں کی اس ہمسایہ ملک پر قبضے کے لیے کی گئی فوجی مداخلت کے آغاز پر Jedwabne میں مقامی آبادی نے نازیوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے یہودی شہریوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔
تب بہت مختصر سے وقت میں ’ژیدوابنے‘ کے اکثریتی طور پر مسیحی عقیدے کے حامل باشندوں نے اس جگہ پر اپنے کم از کم 340 یہودی ہم وطنوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان میں سے اکثر ہلاک شدگان کو مویشیوں کے لیے خشک چارے کی ایک ذخیرہ گاہ میں بند کر کے اس عمارت کو آگ لگا دی گئی تھی جبکہ وہاں جمع کیے گئے باقی ماندہ یہودیوں کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
’ژیدوابنے‘ میں 70 برس قبل پیش آنے والے المناک واقعات کی یاد میں وہاں اتوار کے روز منعقدہ یادگاری تقریب میں پولینڈ کے سابق صدر الیکسانڈر کوازنی ایفسکی بھی خاص طور پر شامل ہوئے۔ دس سال قبل کوازنی ایفسکی ہی وہ پہلے پولستانی سربراہ مملکت تھے، جنہوں نے پولینڈ میں یہودیوں کے قتل عام کے اس اولین واقعے پر اپنے ہم وطنوں کی طرف سے معافی کی درخواست کی تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف