1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودیوں کی لاشوں پر نازی ڈاکٹر کے تجربات، نئی باقیات دریافت

مقبول ملک19 جولائی 2015

فرانسیسی شہر سٹراسبُرگ کے طبِ قانونی کے ادارے سے ماہرین کو دوسری عالمی جنگ کے دوران انسانی لاشوں پر تحقیق اور تجربات کرنے والے نازی ڈاکٹر کا نشانہ بننے والے بیسیوں یہودی قیدیوں کی بہت سی جسمانی باقیات ملی ہیں۔

نازی ڈاکٹر ہِرٹ اذیتی کیمپوں کے یہودی قیدیوں کی لاشوں پر تجربات کیا کرتا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/akg-images

خبر رساں اداروں اے ایف پی اور ڈی پی اے کی اتوار انیس جولائی کے روز ملنے والی رپورٹوں میں سٹراسبُرگ کی شہری انتظامیہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ عشروں پرانی جسمانی باقیات ان 86 یہودی قیدیوں کی ہیں، جنہیں نازی جرمن دستوں کی طرف سے آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں 1943ء میں مقبوضہ فرانس میں سٹراسبُرگ لائی گئی تھیں۔

تب نازیوں ہی کے زیر قبضہ فرانس میں سٹراسبُرگ کی ’رائش یونیورسٹی‘ میں نازیوں کا وہ مشہور ڈاکٹر ان لاشوں پر مختلف تجربات کرتا تھا، جس کا نام آؤگسٹ ہِرٹ تھا اور جو اس یونیورسٹی میں علمِ اعضائے انسانی یا اناٹومی کا پروفیسر بھی تھا۔

اے ایف پی کے مطابق پروفیسر ہِرٹ انسانی جسم کے مختلف حصوں کی بافتوں پر تحقیق کرتا تھا اور اس نے سٹراسبُرگ کے نواح میں سٹرُوٹ ہوف کے نازی اذیتی کیمپ میں قیدیوں پر زہریلی ’مسٹرڈ گیس‘ اور دیگر مادوں کے تجربات بھی کیے تھے۔

نازی دور کی یورپی تاریخ کے ماہرین کے بقول یہ ماہرِ طب اذیتی کیمپوں میں ہلاک کیے جانے والے قیدیوں کی لاشوں سے ڈھانچے حاصل کر کے انہیں جمع کرتا تھا۔ یہ انسانی ڈھانچے بعد میں اس مجوزہ میوزیم میں رکھے جانا تھے، جس کا نام ’یہودیوں کی گمشدہ نسل کا عجائب گھر‘ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

نومبر 1944ء میں اسٹراسبُرگ کے آزاد کرائے جانے کے وقت وہاں کی یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اناٹومی سے بہت سے یہودی قیدیوں کی جزوی طور پر ٹکڑے ٹکڑے لاشیں ملی تھیں، جنہیں 1946ء میں اسی فرانسیسی شہر کے ایک یہودی قبرستان میں ایک اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا تھا۔

اسٹراسبُرگ کی شہری انتطامیہ کے مطابق اسی ادارے اور اس کے گرد و نواح سے اب یہودی قیدیوں کی لاشوں کی جو نئی باقیات ملی ہیں، ان کی موجودگی کا شبہ وہاں تحقیق کرنے والے ایک مؤرخ رافائل تولےدانو کو اس مہینے کے اوائل ہی میں ہو گیا تھا۔ اس نئی دریافت میں دیگر جسمانی باقیات کے علاوہ شیشے کے مرتبانوں اور ٹیسٹ ٹیوبوں میں بند بہت سے طبی نمونے بھی شامل ہیں۔

نازی اذیتی کیمپوں کے یہودی قیدیوں کی لاشوں کو بعد ازاں ایسی بھٹیوں میں جلا دیا جاتا تھاتصویر: AP

ڈاکٹر ہِرٹ نے ان مرتبانوں اور ٹیسٹ ٹیوبوں پر باقاعدہ نمبر لگا کر ان کا اندراج کر رکھا تھا اور یہ نمونے مختلف لاشوں کی جلد، معدے اور آنتوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ مؤرخ تولےدانو کو ان جسمانی باقیات کی موجودگی کا شبہ 1952ء میں اسٹراسبُرگ کے اس میڈیکو لیگل ماہر، ڈاکٹر سیمونِن کے لکھے ایک خط کی وجہ سے ہوا تھا، جو ڈاکٹر ہِرٹ کے جرائم کی تفتیش کرنا چاہتا تھا۔

شہر اسٹراسبُرگ کی انتظامیہ اب نازیوں کے زیر قبضہ یہودی قیدیوں کی ان نو دریافت شدہ جسمانی باقیات کو شہر کی یہودی برادری کے حوالے کرنا چاہتی ہے، جو انہیں اسی شہر کے نواح میں کرونن بورگ کے یہودی قبرستان میں اجتماعی طور پر دفنا دے گی۔

نازی ڈاکٹر آؤگسٹ ہِرٹ نے، جسے گرفتار کر لیا گیا تھا، نیورمبرگ میں سرکردہ زیر حراست نازی رہنماؤں کے خلاف اتحادی طاقتوں کی طرف سے چلائے جانے والے تاریخی مقدمات سے قبل جولائی 1945ء میں خود کشی کر لی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں