یہودی راہبوں اور مسلم اماموں نے جرمن شہر برلن میں یہود اور اسلام مخالف بڑھتے جذبات کے خلاف سائیکل مارچ کیا۔ اس سائیکل مارچ کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ سامیت دشمنی اور اسلاموفوبیا کی جرمن معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔
اشتہار
یہودیوں اور مسلمانوں پر حملوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے خلاف اس مظاہرے میں راہبوں اور اماموں نے مشترکہ طور پر مارچ کیا۔ یہ مارچ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب جرمنی میں قوم پرست جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی AfD کی جانب سے تارکین وطن کے خلاف نہ صرف سخت بیانات کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ابتداء ميں یہ انتہائی غیر مقبول جماعت اب جرمنی کی تیسری سب سے بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔
پچاس افراد جن میں زیادہ تر مسلم اور یہودی تھے، نے اتوار کے روز سامیت دشمنی اور مسلم مخالف جذبات سے وابستہ پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ راہبوں اور اماموں نے برلن کے ہولوکاسٹ میوزیم سے بیبل پلاٹس تک کے علاقے میں سائیکلیں چلائیں۔ واضح رہے کہ بیبل پلاٹس کے علاقے میں سن 1933 میں نازی دور میں بیس ہزار کتب نذر آتش کی گئی تھیں۔ اس مارچ میں مسیحیوں اور غیر مذہبی افراد سمیت برلن شہر کے سیاست دانوں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر برلن کے ایک امام اندر چیتن نے کہا، ’’ہم، تمام اماموں اور راہبوں کو ایک مثال قائم کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ راہبوں اور یہودی برادری کے دیگر ارکان کو ساتھ ملا کر اس مارچ سے ایک واضح اشارہ دیا گیا ہے کہ مسلم برادری سامیت دشمنی کو برداشت نہیں کرے گی۔
مذہبی خواتین اپنا سر کیسے ڈھانپتی ہیں؟
اسلام، مسیحیت یا یہودیت، ان تمام مذاہب میں خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پردے کی غرض سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ ان مذاہب میں اس طرح کے پردے میں کیا مماثلتیں ہیں اور یہ خواتین ان مذہبی پابندیوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پردے کے پیچھے
’’ایسی مسلم خواتین، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، وہ اپنے مذہبی عقائد کے باعث کٹھ پتلیاں نہیں ہیں‘‘، یہ کہنا ہے ترک ویڈیو آرٹسٹ نیلبار گیریش کا۔ سن دو ہزار چھ کی Undressing نامی اس پرفارمنس میں گیریش دکھاتی ہیں کہ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرا پردہ اتارتی ہے اور ساتھ ہی اپنی فیملی کی مختلف خواتین کے نام بڑبڑاتی ہے۔ انہوں نے یہ پراجیکٹ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافے کے ردعمل میں کیا تھا۔
تصویر: Nilbar Güres
جعلی بال
آنا شیتن شلیگر کا Covered نامی سیلف پورٹریٹ 2009ء میں منظر عام پر آیا، جس میں وہ دو مختلف وِگز پہنے ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہودی مذہبی خواتین اس طرح کی وگ کا استعمال کرتی تھیں۔ سترہویں صدی کے اختتام سے ان خواتین نے اپنے بالوں کے پردے کے لیے tichel نامی ایک خاص قسم کا اسکارف پہننا شروع کیا۔ کبھی ایسی وگز بھی فیشن میں رہیں، جو آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے scheitel نامی حجاب کا ایک بہترین متبادل تھیں۔
تصویر: Anna Shteynshleyger
ایک عقیدہ، مختلف مذاہب
مسلم خواتین مختلف قسم کے اسکارف یا حجاب لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے؟ مخصوص قسم کا ہیڈ اسکارف دراصل ایک خاص مذہبی عقیدے اور ثقافتی پس منظر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل مسلمانوں میں ہیڈ اسکارف کو ایک اہم مذہبی جزو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
مذہبی اجتماعات میں سر کا پردہ
فوٹو گرافر ماریہ میہائلوف نے برلن میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا میں ہونے والی عبادات کو عکس بند کیا ہے۔ ان عبادات اور تقریبات کے دوران خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے، جو اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں کم ہی دکھنے میں آتا ہے۔
تصویر: Marija Mihailova
بالوں میں ڈھکی ہوئی خاتون
لمبے، گھنے اور سیاہ بال عرب ممالک میں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ یہی بات اس مجسمے میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویڈن کی ایرانی نژاد آرٹسٹ ماندانہ مقدم نے اپنے Chelgis I نامی اس مجسمے میں دکھایا ہے کہ اگرچہ بال عورت کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن یہی بال ایک ایسا پردہ تخلیق کرنے کا باعث بنے ہیں، جس سے اس کی شناخت چھپ جاتی ہے۔
تصویر: Mandana Moghaddam
بال، صرف شوہر کی آنکھوں کے لیے
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی روایات کے مطابق کسی خاتون کی شادی کے بعد اس کے بال صرف اس کا شوہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے شادی شدہ خاتون کو اپنے بال پردے میں رکھنا چاہییں، چاہے اس مقصد کی خاطر ہیڈ اسکارف پہنا جائے، مصنوعی بال(وِگ) استعمال کیے جائیں یا بالوں کو کسی اور طریقے سے ڈھانپ لیا جائے۔ یہ تصویر Leora Laor نے سن دو ہزار ایک میں یروشلم میں بنائی تھی، جس میں خواتین tichel نامی حجاب میں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Leora Laor
مختلف تشریحات
یہودی خواتین کی یہ تصویر فیڈریکا والابریگا نے سن دو ہزار گیارہ میں نیو یارک کے قریب ایک ساحل سمندر پر بنائی تھی۔ اگرچہ ان تمام خواتین نے ہیڈ اسکارف پہن رکھے ہیں لیکن ان کے بال ان حجابوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عقائد تو بہت سے ہیں لیکن اس کا انحصار اس کے ماننے والوں پر ہے کہ وہ کس طرح ان کی تشریحات کرتے ہیں۔
تصویر: Federica Valabrega
بُرکینی سے پردہ
سمندر میں پیراکی کے دوران بھی اپنے عقائد سے وفادار رہنا؟ مغربی ممالک میں مقیم بہت سی مسلم خواتین کے لیے بُرکینی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کہ اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی کھلے آسمان تلے سمندر میں انجوائے کر سکتی ہیں۔ تاہم مغرب میں بھی کئی حلقے اس سوئمنگ سوٹ کو مسلم بنیاد پرستی کی علامت کے طور پر ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
8 تصاویر1 | 8
اس موقع پر یہودیوں اور مسلمانوں کی ایک ایک سائیکل آپس میں باندھی گئی تھی۔ یہودی راہب الیاس درائے نے کہا کہ انہوں نے چیتن کے ساتھ اپنی سائیکل اس لیے جوڑی تھی تاکہ جرمن معاشرے میں عوامیت پسندی کے رجحان کی وجہ سے پیدا ہونے والی دراڑوں کے خلاف یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ درائے اور چیتن مل کر برلن کے اسکولوں کا دورہ بھی کرتے ہیں تاکہ طلباء میں مذہبی رواداری کا شعور اجاگر کیا جا سکے۔
یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی نے 12.6 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی دوران جرمنی میں مسلمانوں اور یہودیوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔