جرمن وزارت داخلہ نے یہودیوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ کے اُس بیان کی حمایت کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایسے افراد کو جرمنی میں رہنے کا حق نہیں ہونا چاہیے جو جرمن اقدار کا احترام نہیں کرتے۔
اشتہار
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جرمن حکومت کو ملک میں بڑھتے ہوئے سامیت مخالف جذبات کا سامنا ہے۔ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے چیئرمین جوزف شُسٹر نے ملکی روزنامے ’ویلٹ اَم سونٹاگ‘ کو بتایا ہے کہ یہودیوں کے خلاف سوچ سے نمٹنے کے لیے محض جرمانے یا سرکاری سزائیں کافی نہیں ہیں بلکہ ایسے مہاجرین جو جرمن جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ملک سے نکال دینا چاہیے۔
شُسٹر نے مزید کہا،’’ وہ لوگ جو بار بار اور جان بوجھ کر ہماری معاشرتی اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جرمن وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ شُسٹر کے اس بیان کی بھر پور تائید کرتی ہے۔
وزارت کے انڈر سیکرٹری اشٹیفان مائر نے آج روزنامے ’دی ویلٹ‘ کو بتایا،’’ ہمیں آخری حل کے طور پر ایسے تارکین وطن سے جرمنی میں رہنے کا حق واپس لینے پڑے گا جو کسی ایسے جرم کا ارتکاب کریں جس سے سامیت مخالف جذبات کو تحریک ملی ہو۔‘‘
جرمنی سمیت یورپ بھر کو بڑھتے ہوئے سامیت مخالف جذبات کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کا تعلق زیادہ تر تو انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے گروپوں سے ہوتا ہے تاہم جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کو اس تناظر میں اُن تارکین وطن سے بھی تحفظات ہیں جو مسلم اکثریتی ممالک سے جرمنی آئے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز میں جرمن پارلیمان نے ملک میں سامیت دشمنی کے خلاف اقدامات کی منظوری دی تھی۔ پارلیمان کی جانب سے منظور کی گئی تجاویز میں سے ایک بنیادی اقدام حکومتی سطح پر سامیت مخالفت کی نگرانی کے کمشنر کا عہدہ متعارف کرانا بھی شامل ہے۔
ص ح/ نکول گوئبل
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔