’یہی تو زمین پر دوزخ ہے‘، مشرقی محاذ کی یوکرینی فوج کا موقف
4 جولائی 2022
زمین کا ہر ٹکڑا جلا ہوا، راکھ ہو چکے جنگلات، مسلسل زمینی اور فضائی بمباری اور کٹے پھٹے جسموں والے ساتھی سپاہی، مشرقی یوکرین کے جنگی محاذ پر روسی حملوں کا مقابلہ کرتے یوکرینی فوجیوں نے کہا ہے، ’’یہی تو زمین پر دوزخ ہے۔‘‘
اشتہار
مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے روس نواز علیحدگی پسند خطوں میں ماسکو کی مسلح افواج کی زمینی توپوں اور جنگی طیاروں کی مسلسل بمباری کا مقابلہ کرتے ہوئے کییف حکومت کے فوجی دستوں میں شامل بہت سے سپاہیوں نے خبر رساں ادارے اے پی کے ساتھ انٹرویو میں اس جنگ کی تباہ کاریوں کی جو تصویر کشی کی، وہ دل ہلا دینے والی تھی۔
ڈونباس کے مشرقی یوکرینی علاقے میں روس اپنی پوری عسکری طاقت کے ساتھ زمینی اور فضائی حملے اس لیے جاری رکھے ہوئے ہے کہ اس پورے علاقے پر اپنے مکمل فوجی قبضے کو یقینی بنا سکے۔
لوہانسک کے بعد دونیٹسک
روسی افواج کو لوہانسک کے یوکرینی خطے پر تو تقریباﹰ مکمل کنٹرول حاصل ہو چکا ہے اور لوہانسک کے گورنر سیرہئی گائیدائی کے مطابق اس جنگ میں روس اب اپنی پوری توجہ ڈونیٹسک کے علاقے پر مرکوز کرے گا۔ اس لیے کہ لوہانسک کے بعد ہمسایہ خطے ڈونیٹسک پر مکمل قبضے کے بعد روس اس سارے مشرقی یوکرینی خطے پر قابض ہو جائے گا، جو ڈونباس کہلاتا ہے۔
یوکرین کے اس علاقے کے باخموت نامی شہر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یوکرینی فوج کے کئی سپاہیوں نے بتایا کہ روسی توپوں اور جنگی طیاروں سے مسلسل بمباری کے باعث بہت سے یوکرینی فوجیوں کے پاس بس یہی راستہ بچا تھا کہ وہ اپنے مورچوں میں چھپے بیٹھے رہیں اور انتظار کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے رہیں۔
جنگی محاذ سے واپس لوٹنے والے کییف حکومت کے ان فوجیوں کے مطابق خاص طور پر مشرق کے جنگی علاقوں میں حالات اتنے برے ہیں کہ کئی فوجیوں کو اگر ذہنی مسائل کا بھی سامنا رہا تو بہت سے دیگر ہر طرح کے حالات میں ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
'شہر جو جلا ہوا صحرا بن گیا‘
مشرقی یوکرین میں ملکی نیشنل گارڈز کی سووبودا بٹالین کے نائب کمانڈر لیفٹیننٹ وولودیمیر نازارینکو نے اے پی کو بتایا، ''میں ان فوجیوں میں شامل تھا، جو ملکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے حکم پر سیویروڈونیٹسک کے شہر سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس لوٹ آئے۔‘‘
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
لیفٹیننٹ نازارینکو نے بتایا، ''ہم نے ایک ماہ تک روسی زمینی اور فضائی حملوں کا مقابلہ کیا۔ روسی ٹینکوں نے ہر اس جگہ پر اندھا دھند گولہ باری کی، جہاں ان کے خیال میں ہماری ممکنہ دفاعی پوزیشنیں ہو سکتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ سے پہلے ایک لاکھ ایک ہزار کی آبادی والا یہ شہر ہم جس حالت میں پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں، وہ صرف ایک جلا ہوا صحرا تھا۔‘‘
'یہی تو زمین پر دوزخ ہے‘
لیفٹیننٹ نازارینکو کی بٹالین کے ایک سپاہی آرٹیم روبان نے بتایا کہ روسی افواج نے سیویروڈوینٹسک کو بڑی منصوبہ بندی اور تواتر سے کیے جانے والے حملوں سے پوری طرح تباہ کیا۔
اس سپاہی نے کہا کہ اس کے ساتھی فوجیوں میں جب تک ہمت تھی، وہ اس علاقے کا دفاع کرتے رہے۔ پھر انہیں سیویروڈونیٹسک سے نکل کر 64 کلومیٹر دور مقابلتاﹰ محفوظ شہر باخموت کا رخ کرنا پڑ گیا۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
آرٹیم روبان نے بتایا، ''زمین پر اگر کسی جگہ دوزخ تھی یا ہے، تو وہ سیویروڈونیٹسک ہی ہے۔ ہم جن حالات میں لڑ رہے تھے، انہیں کسی بھی طرح انسانوں کے لیے قابل برداشت حالات نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
ان یوکرینی سپاہیوں نے بتایا کہ مشرقی یوکرین کے جنگی محاذ والے علاقے میں زمین کا ہر ٹکڑا بارود سے جلا ہوا تھا، جنگل گولہ باری کے نتیجے میں آگ لگنے سے راکھ ہو چکے تھے اور ان سپاہیوں کے لیے اپنے کٹے پھٹے جسموں والے ساتھی سپاہیوں کو دیکھنا بھی ایک ناقابل برداشت منظر تھا۔
آرٹیم روبان کے الفاظ میں، ''کبھی کبھی تو ہمارے پاس دن میں اپنے مورچوں میں چھپے رہنے اور انتظار اور دعائیں کرتے رہنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے جو ساتھی زخمی ہو جاتے تھے، انہیں جنگی محاذ سے پیچھے بھیجنے کے لیے ہمیں دو دو دن انتظار کرنا پڑتا تھا اور وہ بھی رات کے گھپ اندھیرے میں۔‘‘
م م / ع ا (اے پی، اے ایف پی)
کییف میں روسی دوستی کی یادگار مسمار
روس کی یوکرین پر بے رحمانہ فوجی چڑھائی کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔ کییف میں سوویت دور کی یادگار کو توڑ دیا گیا ہے۔ یہ روسی یوکرینی دوستی کی یادگار تھی۔
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
پھیلتی ہوئی دراڑیں
اس یادگار کا مقام دراصل کییف شہر کے قیام کی پندرہ سوویں سالگرہ کی جگہ بھی ہے۔ اسی جگہ کو روسی اور یوکرینی باشندوں کی دوستی کا مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عوامی دوستی کی محراب میں سن 2018 میں روس اور کریمیا میں یوکرینی شہریوں کی قید کے بعد اس عمل کے خلاف سرگرم یوکرینی کارکنوں نے توڑ پھوڑ بھی کی تھی، جن پر بعد میں رنگ پھیر دیا گیا تھا۔
تصویر: Maxym Marusenko/NurPhoto/picture alliance
’بھائی بھائیوں کو قتل نہیں کرتے‘
کییف کے میئر ویٹالی کلِچکو نے صحافیوں کو بتایا کہ لوگوں نے شہر سے روسی نشانات کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے روسی حملے کے تناظر میں کہا، ’’ اپنے بھائیوں کو قتل نہیں کرتے، اپنی بہنوں کو ریپ نہیں کرتے، اپنے دوستوں کے ملک کو تباہ نہیں کرتے، لیکن اس ضابطے کا خیال نہیں رکھا گیا، اسی لیے آج لوگوں نے اس یادگار کو گرا دیا۔‘‘
تصویر: Sergei Chuzavkov/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance
دوستی کے سبھی تعلق ٹوٹ رہے ہیں؟
یادگاری مجسمہ اب گرایا جا چکا ہے۔ چھ میٹر بلند، تانبے کے اس اسکلپچر میں ایک روسی اور ایک یوکرینی کارکن اپنے ہاتھوں میں سوویت دوستی کا ربن تھامے ہوئے کھڑے تھے اور یہ روس اور یوکرین کے ’دوبارہ اتحاد‘ کی یادگار تھا۔
تصویر: Maxym Marusenko/NurPhoto/picture alliance
یہ وقت دوستی کے لیے مناسب نہیں
سن 1982 میں آرکیٹیکٹ سیرہی مِرہورودسکی نے اس یادگار کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اب اس چھیاسی سالہ ماہر تعمیرات نے اس یادگار کو گرانا ہی درست عمل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اب روس سے دوستی نہیں ہے اور کئی برسوں تک نہیں ہو گی، جب تک پوٹن اور ان کا گروپ اس دنیا میں میں موجود ہیں۔‘‘
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
ٹوٹا ہوا سر
اس یادگار کو گرانے کے دوران دو میں سے ایک مجسمے کا سر ٹوٹ کر گر گیا۔ کییف کے میئر کلِچکو کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو اس بڑی یادگار کے مجسموں کو گرانے میں مشکل کا سامنا رہا لیکن آخرکار وہ کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دشمن اور روسی قابضوں کو بھی اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
روسی یادگار کے خاتمے پر مسرت کا اظہار
جیسے ہی ایک کرین نے اس یادگار کو اٹھا کر زمین پر رکھا، وہاں جمع سو کے قریب افراد نے یوکرین زندہ باد، ہیروز زندہ باد اور یوکرینی عوام زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ پورے یوکرین میں روسی نشانات اور باقیات کا صفایا جاری ہے۔ سوویت دور کی کئی یادگاریں بھی مسمار کی جا رہی ہیں اور روسی شخصیات کے ناموں والی سڑکوں اور چوراہوں کے نام بھی بدلے جا رہے ہیں۔
تصویر: Sergei Chuzavkov/ZUMAPRESS/picture alliance
اور بھی کئی علامات نشانے پر
کییف میں قریب ساٹھ گلیوں اور مقامات کو نئے نام دیے جا چکے ہیں۔ اس تبدیلی سے کییف کے زیر زمین ریلوے نظام کا ایک اسٹیشن ’لیو ٹالسٹائی‘ بھی متاثر ہوا ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ زیادہ ہو گیا۔ کییف کے ایک شہری ایہور سیرہیوچ نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا، ’’پوٹن کا کوئی مجسمہ ہوتا تو بات سمجھ میں آتی بھی، لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دشمنوں اور عالمی شہرت یافتہ ادیب میں تفریق کر سکیں۔‘‘