یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم سخت محنت اور دل جمعی سے کام کرنے والوں کے لیے 'گدھے کی طرح محنت کرنے‘ کی مثل پیش کرتے ہیں۔ گویا گدھوں کی طرح کام کرنا بڑی حماقت اور بے وقوفی کی بات ہو۔ شاید یہی چھٹی کرنے یا آرام طلبی کی ذہنیت ہی کچھ وسعت پا کر ملکی یا حکومتی سطح پر بے وجہ کی سرکاری تعطیلات کا سبب بنتی ہے۔
ہمارے ملک میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر لوگ بروقت کام مکمل کرنے کی پروا کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ انفرادی طور پر ہم اکثر اپنے معمولات میں گویا کام سے رخصت کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ یہی ماجرا ریاستی سطح پر بھی پایا جاتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بھی اپنے عوام کو چھٹیاں دینے کے بہانے ڈھونڈتی ہے، یعنی کسی بھی بڑے قومی یا اجتماعی مسئلے پر بہت سہولت سے چھٹی کی صورت میں ایک حل کے طور پر نکالا جاتا ہے، کہ آج فلاں احتجاج یا جلسے کی وجہ سے سڑکیں بند ہوں گی یا کسی بڑی تقریب یا 'وی آئی پی‘ موومنٹ کی وجہ سے ٹریفک زیادہ ہو گا۔
اگر کہیں کوئی اہم کرکٹ میچ ہو رہا ہے، غیر ملکی مہمان موجود ہیں، کہیں کوئی اہم نمائش لگی ہوئی ہے، کچھ نہیں تو بارشیں، سموگ یا اور کوئی موسمی شدت کا اندیشہ ہے، کہیں کوئی احتجاج یا مظاہرہ ہو رہا ہو، تو جھٹ سے چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی دہشت گردی کا اندیشہ ہو تو بھی حکام کی نظر میں جان و مال کا تحفظ اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ اپنے گھروں میں بند رہیں اور چھٹی منائیں۔
معمول کی چھٹیوں کے ساتھ عام تعطیل کا اعلان بھی ہمارے جیسے ملکوں میں بہت معمول کی بات ہے، شاید مجموعی مزاج ہے کہ ہمارے حکام نہیں سوچتے کہ ایک دن کی چھٹی کرنے سے ملک، شہر، صوبے یا کسی شہر میں بھی کس قدر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں بھی وہی جان چھڑانے والی ذہنیت کار فرما ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک کام کا حرج ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، ہم کرکٹ میچ جیت جائیں، تو اس خوشی کا اظہار بھی عام تعطیل کی صورت میں کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک نے کوئی سنگ میل عبور کر لیا ہے تو اس یاد کا تحفہ بھی چھٹی ہی سے ملے گا، محنت کشوں کے عالمی دن سے لے کر کسی سے اظہار یک جہتی تک۔ نام ور شخصیات کے ایام پیدائش اور وفات سے لے کر مختلف اہم مواقع تک۔ جب تک چھٹی نہ ہو ہم بتا ہی نہیں سکتے کہ اس تہوار یا موقع کی ہمارے لیے کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ سانحہ ہے تو سوگ کا اظہار بھی زیادہ سے زیادہ دن کاروبار بند رکھ کر ہی کیا جاتا ہے۔ جب کہ کسی بھی طرح آپ کو اپنے ملک میں چھٹیاں کم سے کم اور معمولات زندگی بحال رکھنی چاہییں، آخر بچوں کی تعلیم، دفاتر میں اہم معاملات اور فیکٹریوں میں کام کا نقصان کیوں کر دور ہو گا؟
ان چھٹیوں سے جو نقصان ہے، اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ لیکن کیا کیجیے گا کہ ہمارے حکام کب اتنا سوچتے ہیں، ہمارے ملک میں چھٹی، تو ہر مرض کا علاج ہے۔ ناغہ کرنا قومی مشغلہ ہے۔ عام زندگی میں بھی ہم اکثر ایسی اچھی یا بری تعطیلات پر بے انتہا خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ شاذ و نادر ہی کوئی پریشان یا اداس ہوتا ہے کہ اس کا ایک دن اس کی زندگی سے رائیگاں چلا گیا، نہ ہی کوئی لکھنے پڑھنے والا یہ احساس دلاتا ہے کہ آج کل زندگی کتنی تیز رفتار ہے، اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اور کس طرح ایک پورا دن غیر ضروری فراغت کی نذر ہو گیا ہے، یعنی ہماری معیشت اور تعلیم پہلے ہی دنیا سے کتنی پیچھے ہے اور ہم اپنی چھٹیوں میں مشغول رہ کر اس فاصلے کو اور بڑھا رہے ہیں۔
ایک نظریے کے تحت زیادہ آبادی کو بوجھ کہا جاتا ہے، لیکن دوسرے نظریے کے مطابق زیادہ آبادی کو افرادی قوت میں اضافے کے طور پر لیا جاتا ہے، جس کی بہرحال اپنی جگہ اہمیت ہے، لیکن اگر یہ افرادی قوت چھٹیاں کرتی رہے اور متحرک نہ ہو تو یقیناً اس کے بوجھ ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہے اور یہ تعطیلات لوگوں کو بوجھ بنانے ہی میں کردار ادا کرتی ہیں، کیوں کہ اس دن ہم کھانے پینے سے لے کر زندگی کے سارے وسائل تو پورے پورے استعمال کر رہے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں کام نہیں کر رہے۔
اس سے نقصان کے سوا اور کیا ہو گا؟ پھر چھٹیوں کے نتیجے میں مختلف لوگ اپنے کام نہ ہونے سے پریشان بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے کام نہ کرنے کی وجہ سے کوئی کتنی زیادہ مشکل میں پھنسا رہے، اس کے کام میں مزید تاخیر ہوتی رہے، لیکن ہم کبھی اتنی گہرائی سے نہیں سوچتے۔ کام کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے، اس لیے ہمیں ایسی غیر ضروری چھٹیوں کے مسئلے کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم شاید انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت سی بہتریوں کا باعث بن جائیں اور ہماری معیشت بھی سنبھلنے لگے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔