یہ قبرستان سیدوں کا ہے
11 اکتوبر 2021ہر طرف لال رنگ کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے اس قصبے نے گویا رنگ برنگی سندھی ٹوپیوں اور اجرک کی چادر اوڑھ لی ہو۔”تنجھو سائیں، منجھو سائیں، جی ایم سائیں، جی ایم سائیں، تنجھو رہبر، منجھو رہبر، جی ایم سید، جی ایم سید‘‘۔ کالجوں اور یونیورسٹی کے جذباتی طالب علم فضا میں نعرے بلند کر کے اپنے رہنما کو خراج عقیدت پیش کر کے دنیا سے رخصت کر رہے تھے۔ جہاں ان کے چاہنے والے سندھ میں پروگریسیو اور قوم پرست سیاست کا بانی سمجھتے ہیں تو ناقدین انہیں''غدار‘‘ جیسے القابات سے پکارتے رہے ہیں۔
اس روز ان ’’سیاسی چیلوں‘‘ نے اپنے روحانی پیشوا کے جنازے میں قرآن شریف کی تلاوت کے ساتھ دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں گیتا، توریت، بائبل سے اقتباسات پڑھے، جو بقول ان کے جی ایم سید کی دوسرے مذاہب سے عقیدت کی عکاسی تھی۔
ان کے آبائی قبرستان حیدر شاہ سنائی میں تدفین کے وقت درخت کے ساتھ ایک شخص سسکیوں سے رو رہا تھا۔ جنازے میں موجود غالباﹰ ہر شخص کا شناسا اور جی ایم سید کا خادم خاص، اس نے ساری زندگی ان کے ساتھ ہی بتائی تھی۔ نظر بندی ہو یا سندھ کے سیاسی دورے یا نوجوانوں سے ’’سائیں‘‘کی کچہریاں، وہ ہمیشہ ساتھ ہی نظر آتا۔ نام ماسٹر غلام قادر، ذات کا ملاح۔ بتایا جاتا ہے کہ جی ایم سید کے سوئم کے روز ماسٹر غلام قادر ملاح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
ستم ظریفی دیکھیے پچیس چھبیس برس بعد جی ایم سید کا خانوادہ اور ماسٹر غلام قادر کی ملاح برادری ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ قضیہ اسی حیدر شاہ سنائی قبرستان کا ہے، جہاں جی ایم سید اور ان کا چہیتا غلام قادر ملاح دفن ہیں۔
ملاح برادری، جو اس قصبے میں صدیوں سے آباد ہے اور روایتی طور پر جی ایم سید کی قوم پرست سیاست کی حامی رہی ہے لیکن ان دنوں سراپا احتجاج ہے۔ یہاں کے باسی واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ ماہ قبرستان میں مقامی میونسپل کمیٹی کے اہلکاروں کی غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھی گئیں۔ ابتدا میں احساس ہوا کہ شاید قبرستان میں کوئی مرمت یا صفائی وغیرہ ہو رہی ہو گی۔ لیکن جب مقامی ملاح برادری کے کچھ افراد قبرستان میں اپنے عزیزوں کی قبروں پر حاضری دینے گئے تو کہرام سا مچ گیا، لگ بھگ بارہ قبریں کھدی پڑی تھیں۔
پتا چلا کہ سید ظفر شاہ، جو جی ایم سید کے پوتے ہیں، یہ کارروائی ان کے حکم پر ہوئی ہے۔ ملاح برادری کی قبروں سے باقیات نکالی گئیں اور دوسری جگہ اجتماعی طور پر منتقل کر دی گئیں۔
بقول ایک ملاح کے،''ہم نے احتجاج کیا تو ظفر شاہ نے کہا کہ یہ قبرستان سیدوں کا ہے۔ ہماری مستورات دفن ہیں۔ ملاحوں کی قبروں سے بے حرمتی ہوتی ہے۔‘‘ ابتدا میں اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ معاملہ اتنی سنگینی اختیار کر گیا کہ سندھ کی مذہبی رواداری اور بھائی چارے کے سماجی تشخص کو ہلا کر رکھ دیا۔
سندھ کے انسانی حقوق کے علمبردار رہنما، دانشور اور معروف لکھاری، جن میں نور الہدی شاہ، جامی چانڈیو، امر سندھو اور عطیہ داؤد شامل ہیں، معاشرے میں اس ’’غیر انسانی اور وحشیانہ عمل‘‘ کے خلاف احتجاجی پرچار کر رہے ہیں۔
چند برس قبل بدین میں انتہاپسندوں کے جتھوں نے قبرستان سے ایک شخص بھورو بھیل کی لاش کو نکال کر پھینک دیا تھا۔ انتہاپسندوں کی نظروں میں قصور بھورو بھیل کا تھا۔ ہندو اور وہ بھی دلِت، کیسے مسلمانوں کے قبرستان کے احاطے میں دفنایا گیا؟ لیکن سیاسی، قوم پرست جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے یک زباں ہو کر واقعے کی مذمت کی اور ہندو برادری کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس وقت اس رجحان کو سندھ سے جذباتی لگاؤ رکھنے والی بعض شخصیات نے ’’غیر فطری اور سندھ دھرتی پر اجنبی ثقافت تھوپنے‘‘ کی سازش گردانا تھا۔
سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ دھرتی پر انتہاپسندانہ سوچ کا غلبہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم نے تو بچپن سے اس دھرتی پر ہندو مسلمان یکتا دیکھی ہے۔ ہولی ہو یا دیوالی یا پھر عید کا تہوار، ہم نے تحائف کا تبادلہ ہوتے دیکھا ہے۔
لیکن ماضی میں انتہاپسندی کے جو بیج بوئے گئے تھے، وہ اب تناور درختوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور سندھ کی سرزمین میں پھیلی اس کی جڑیں اب دھرتی کی صوفی شناخت کو کھوکھلا کر رہی ہیں اور ہم ماضی کے رومانس میں شاید مدہوش ہی رہنا چاہتے ہیں۔
سندھ میں انسانی حقوق کی سرکردہ رہنما عرفانہ ملاح کہتی ہیں کہ ریت میں شتر مرغ کی طرح سر چھپانے سے سندھ میں تلخ حقیقتوں کی تبدیلیوں سے منہ نہیں موڑا نہیں جا سکتا اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، ذات پات کی سماجی تفریق سندھ کی دھرتی کے لیے ناسور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے وڈیروں کی سیاسی راجدھانیوں نے سیاسی گھٹن کا ماحول پیدا کیا اور اب ذات پات کی بنیاد پر سماجی تقسیم کی راجدھانیاں بنا کر دھرتی کے تشخص کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''سید شخصیت جیسی بھی ہو، ذات کی اعلی و ارفع ہے اور میں ڈاکٹریٹ کر کے بھی نچلی ذات کیونکہ میں ملاح ہوں۔ میری برادری کے پرکھوں کی قبریں بھی قبرستان میں قبول نہیں۔ سندھ میں قبرستان بھی اب سیدوں کے الگ ہونے لگے ہیں، تو یہ ہمیں اپنی دھرتی پر قبول نہیں۔‘‘
سید برادری کے ذمہ داران اس ''انفرادی عمل‘‘ کو برادری کے خلاف سوچی سمجھی سازش مانتے ہیں اور اس واقعے کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو برادری کو بدنام کرنے کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔
میری خود پرورش سندھ کے معاشرے میں ہی ہوئی ہے۔ اس معاشرے میں سیدوں کا درجہ اعلیٰ ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ پہلے تو سید خاندانوں کی شادی بیاہ صرف اپنی ہی ذات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں تک محدود تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ پھر دوسری ذات کے خاندانوں کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہ کرنے کی مثالیں بھی دیکھی گئیں۔
لیکن اب بھی اگر سید خاندان کی لڑکی کسی دوسری ذات کے لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو اکثر اسے سماج بدر کر دیا جاتا ہے یا پھر خاندانی ناراضی برسوں جاری رہتی ہے۔ پرانے زمانے میں سید خاندانوں کی لڑکیوں کو ’’قرآن سے شادی‘‘ کی رسم کے ذریعے اپنے فرسودہ رسم و رواج پر قربان کر دیا جاتا تھا۔
سندھ کے شاعر اور صحافی اشفاق آذر ایک قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں، ’’شکارپور میں ہمارے محلے کے ایک سید خاندان کی چار لڑکیاں تھیں۔ اب وہ بوڑھی ہو گئی ہیں لیکن اسی فرسودہ رواج کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہو سکیں۔ وہ اب بابرکت بیبیاں سمجھی جاتی ہیں۔ محلے، پڑوس کے لوگ ان سے فال نکلواتے ہیں اور اپنی قسمت بدلوانے کی دعائیں لیتے ہیں۔‘‘
قرآن سے شادی کی رسم کو جدید دور میں محقق چیلنج کرتے ہیں اور اسے دراصل حق معاف کروانے کی رسم مانتے ہیں۔ جب سید خاندان میں لڑکی کا رشتہ نہ مل رہا ہو تو لڑکی کو اس رسم کی زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ رسم کی رو سے سید خاندان کی وہ لڑکیاں اپنے شادی اور خاندان کی جائیداد اور زمین میں حصے کے حق کو معاف کر دیتی ہیں اور اپنی حویلیوں میں پوری زندگی کی قید کاٹتے ہوئے موت کی گھڑیاں گنتی رہتی ہیں۔
سید اپنی ذات کی نسبت کو حضور پاک کے خاندان سے جوڑتے ہیں اور معاشرے میں اعلی درجہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کی سندھ میں آمد محمد بن قاسم کے دور میں بتائی جاتی ہے لیکن کچھ روایتوں کے مطابق اس سلسلے کا آغاز کربلا کے واقعے کے بعد ہوا۔ سندھ معاشرہ، جس کی بنیادوں میں صوفی ثقافت رچی بسی ہے، وہاں سیدوں کو انتہائی احترام اور عزت کا مقام حاصل ہوا۔
دھیرے دھیرے بااثر سید خاندانوں نے معاشرے میں حاصل شدہ حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی اجارہ داری بھی حاصل کی۔ مخدوم ہوں یا پیر، جو گوٹھ کے پیر پگارا ہوں یا سکھر کے خورشید شاہ، خیرپور کے سید قائم علیشاہ ہوں یا شاہ رکن عالم کے گدی نشین شاہ محمود قریشی، سب ہی انتخابات کے دوران سندھ میں ووٹوں کے حصول کی جدو جہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسمبلی کے اراکین کے ناموں کے ساتھ سید اور شاہ اتنے ہیں کہ گنتے گنتے سانس پھول جائے۔
جی ایم سید کا خانوادہ بھی سیاسی اجارہ داری کی تلاش میں ہے لیکن ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ سید ظفر شاہ، جنہیں ملاح برادری کے بزرگوں کی قبروں کی بے حرمتی کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے، وہاں ان کا سوشل میڈیا پر چند جملوں کا پیغام ہے کہ انہیں افسوس ہوا ہے۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ جی ایم سید کے نام کے ساتھ جی رہے ہیں، ان کے فلسفہ پر داغ لگایا ہے، جو شاید مٹائے نہ مٹ سکے۔
چند برس قبل اپنے دوستوں جامی چانڈیو اور ناز سہتو کے ساتھ تھر کے صحرا سے لاڑکانہ، سکھر اور گھوٹکی تک کیا سفر یاد آر ہا ہے۔ شاہ لطیف بھٹائی کی درگاہ میں میں ان کا ہندو فقیر واگند دفن ہے۔ ناز سہتو نے بھٹائی کے اپنے ہندو فقیر کیلے ’’بلاول‘‘ سر میں کہے کلام کے اشعار سنائے۔ سچل سرمست کی درگاہ پہنچے تو اسی احاطہ میں ان کی ہندو فقیر ’’نماڑو‘‘ اور مرید نندنی شیوک رام کی قبریں بھی موجود ہیں۔
ہم دوست ماضی کے مذہبی رواداری کے گہوارے سندھ کی ثفاقت کی یادوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ فقیر صوفی کلام گانے میں مصروف تھے۔ جب ہم درگاہ سے نکلے اور پیچھے نظر ڈالی تو خیال آیا کہ کہیں یہ روایتیں صرف سندھ کی رومانوی تاریخ کے پنوں ہی میں نہ بند ہوجائیں۔ دل میں ایک انجانا سا خوف تھا کہ کہیں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا بھنور سندھ کی ثقافت کو ہی نہ نگل جائے، کہیں یہ سیلاب ہماری سنہری یادوں کو ہی بہا کر نہ لے جائے۔