1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ قصہ ہے سوشل میڈیا ٹرولنگ کا

سعدیہ احمد
29 جون 2020

سچ کہوں تو کئی بار جی بھی چاہتا ہے کہ چپ چاپ آنکھوں پر کپڑا ڈال کر پڑی رہوں۔ ایک کمرے میں بند ہو جاؤں۔ نہ کسی کو دکھائی دوں نا سنائی۔ بس اپنی دنیا میں کھو جاؤں۔

DW Urdu Bloggerin Saadia Ahmed
تصویر: Privat

صبح کے پونے سات بج رہے ہیں۔ مجھے نیند سے بیدار ہوئے تقریبا پچاس منٹ ہونے کو ہیں۔ یوں تو چھٹی کا دن ہے لیکن صاحب ہماری بلا سے۔ کم بخت باڈی کلاک ایسا ہے کہ عین اسی وقت جگا دیتا ہے، جس وقت میں اگر سو بھی جاؤں تو دنیا قیامت کی نذر ہر گز نہیں ہو گی۔ زندگی میں ایک یہی رونا تھوڑا ہی ہے۔ پکچر ابھی باقی ہے دوست۔ بجائے اس کے کہ میں کروٹ بدل کر سو جاؤں، میں مزید اپنا بیڑہ غرق کرنے پر تلی ہوئی ہوں۔

اس وقت میں اپنے یوٹیوب چینل پر لوگوں کے کمنٹس چیک کر رہی ہوں۔ بلکہ چیک تو کیا کرنے، زیادہ تر تلف ہی کر رہی ہوں۔ اصل میں میں بسا اوقات لگی لپٹی کہنے سے قاصر ہی رہتی ہوں اور ہمارے یہاں یوں بھی اختلاف رائے سے تو اختلاف ہی کیا جاتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ عورت ہوں اور وہ بھی اپنی سوچ رکھنے والی۔ یہ کریلا خاصا نیم چڑھا ہے۔ کوئی ہم جیسی کونین کی گولی کو مصری کی ڈلی کی طرح خوش دلی سے کیونکر نگلے؟

یہ بھی پڑھیے:پاکستانی خواتین اب آئی ٹی میں خود کو منوا سکتی ہیں

کچھ یہ بھی ہے کہ میں سوشل میڈیا ٹرولز تو ہوں نہیں۔ اپنی تصویر اور نام کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کام کرتی ہوں۔ اظہار رائے سے گریز نہیں کرتی۔ میرے خاندان والے بھی مجھے فالو کرتے ہیں۔ لہذا وہ زبان جو ان کمنٹس میں استعمال ہوتی ہے وہ شاید میرے لیے تو روز کی بات ہو لیکن شاید گھر والے نہ سہہ پائیں۔ خیر، جہاں روز صبح اسی کارخیر میں گزرے آپ اندازہ لگا لیجئے باقی دن کیسا گزرتا ہو گا۔ لیکن کیا کیجئے؟ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا۔

شاید آپ کو سننے میں لگ رہا ہو کہ میں بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہوں۔ اس قدر مغلظات سننے کے باوجود بھی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہوں تو یقینا ڈھیٹ ہڈی ہی ہوں گی۔ ہاتھی کی سی موٹی چمڑی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں کچھ دیکھ، سن، یا محسوس نہیں کر پاتی۔ ارے بھئی، انسان ہوں۔ میرا بھی جی چاہتا ہے کہ کوئی دن ایسا بھی گزرے جس دن میرا جرم محض اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔ کوئی ایسی صبح ہو جب مجھے ذاتیات تک پر باتیں نہ سننی پڑیں۔ لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔

یہ کہانی صرف میری ہی نہیں بلکہ پاکستانی سوشل میڈیا پر موجود تقریبا سبھی خواتین کی ہے۔ یہ صبح کی روٹین میری ہی نہیں بلکہ ایسی بہت سی عورتوں کی ہے، جنہوں نے اس پدرشاہی نظام کو مزید تقویت پہنچانے سے انکار کیا ہے۔ وہ تمام عورتیں جو خود کو چھپانے سے منکر ہیں، جنہیں اپنی ذات اور صلاحیتوں کا ادراک ہو چکا ہے، جن 'گناہ گار‘ عورتوں کو لگتا ہے کہ ان کی زندگی کے فیصلے پر ان ہی کا حق ہے، جو نہ صرف ہر معاملے پر اپنی رائے رکھتی ہیں بلکہ برملا اس کا اظہار کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتیں، انہیں اسی طرح خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کبھی ان کی شکل اور عمر پر فقرے کسے جاتے ہیں تو کبھی گالم گلوچ میں ہر حد پار کر دی جاتی ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ ٹرول کرنے والے یہ لوگ حقیقی زندگی میں غالبا کسی عورت سے نظریں ملا کر بات بھی نہ کر پائیں۔ ان سے ان کا نام تک نہ پوچھ پائیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر بے نام اکاونٹ انہیں یہ طاقت دے دیتا ہے کہ کسی کو کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ دیں۔ اس کے کسی کی ذہنی صحت یا زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں، ان کی بلا سے۔

سچ کہوں تو کئی بار جی بھی چاہتا ہے کہ چپ چاپ آنکھوں پر کپڑا ڈال کر پڑی رہوں۔ ایک کمرے میں بند ہو جاؤں۔ نہ کسی کو دکھائی دوں نا سنائی۔ بس اپنی دنیا میں کھو جاؤں۔

یہ بھی پڑھیے:چند خواتین نفرت آمیز سوشل میڈیا مہم کا شکار

لیکن ایسا کیوں کیا جائے بھلا؟ ایسا نہیں ہے کہ مجھے خود کو بہادر ثابت کرنے کا شوق ہے یا ایسا کرنے پر کوئی تمغہ ملے گا۔ کوئی ایسی ریس نہیں لگی ہوئی کہ کسی کو نیچا دکھانا ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ ان سوشل میڈیا ٹرولز کو کامیاب ہونے کا موقع کیوں دیا جائے؟ انہیں یہ تسکین کیوں بخشیں کہ ان کی لغو گفتگو مجھے میرے مقصد سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی؟

ہمارے ہاں زیادہ تر تر عورتیں سوشل میڈیا پر آنے سے کتراتی ہیں۔ انہیں گھر تک میں رائے کے اظہار پر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو انہیں رائے دینے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں جو آٹے میں نمک کے برابر خواتین علم اٹھائے کھڑی ہیں ان کی زبان بندی کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اگر میں بھی خاموش ہو گئی تو یہ جنگ کون لڑے گا؟ اپنے لیے اور ظلم کا شکار طبقوں کے لیے آواز کون اٹھائے گا؟ بھلے میری آواز نقار خانے میں طوطی کی ہی سہی لیکن آواز تو ہے۔

لہذا جب تک منزل نہیں آتی میں چلتی رہوں گی۔ آپ ٹرولنگ جاری رکھیے۔ وہ کہا تھا نا غالب نے کہ 'وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں‘، لیکن یہ بدنما کھیل یوں ہی آخر کب تک چلے گا؟ 'ہم دیکھیں گے‘، یہ امید دامن دل میں بسائے میں اور میری جیسی کتنی ہی خواتین آواز بلند کرتی رہیں گی۔

’ٹرولز‘ کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

02:37

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں