1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہ ’ملٹی پولر‘ دنیا کیا ہے؟

28 جولائی 2024

ماہرین کے مطابق ایک کثیر قطبی دنیا کی بات کرنے والے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے اثرورسوخ میں کمی کے خواہاں تو ہیں لیکن خود ان ملکوں کا اپنا مستقبل کا وژن ایک دوسرے سے جدا ہے۔

Symbolbild I Südafrika als Friedensvermittler
تصویر: Mike Hutchings/AP/picture alliance

روس، بھارت اور چین کے رہنما اکثر ایک ملٹی پولر ورلڈ یا 'کثیر قطبی‘ دنیا کے قیام کے بارے میں شاعرانہ انداز اختیار کرتے ہیں حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نظام کیا ہوگا۔ یہ تینوں ممالک ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ مل کر باقاعدگی سے ایک ایسے نئے عالمی نظام کے مطالبات کی قیادت کرتے ہیں، جس میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کردار کم ہو۔

لیکن ماہرین کے مطابق عالمی معاملات میں مغربی تسلط میں کمی دیکھنے کی ان کی مشترکہ خواہش سے ہٹ کر ان ممالک کے درمیان بہت ہی کم ایسی چیزیں ہیں، جو درحقیقت مستقبل کے بارے میں ان کے وژن سے منسلک ہیں۔  چین کے صدر شی جن پنگ نے رواں ماہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کے دوران کہا، ''ہمیں مشترکہ طور پر ایک مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا کی وکالت کرنی چاہیے۔‘‘

ایک ملٹی پولر دنیا کے حامی ممالک بینیادی طور پر امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے غلبے میں کمی دیکھنے کے خواہاں ہیںتصویر: Eric Lalmand/BELGA/dpa/picture alliance

 اسی سربراہی اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا، ''تمام شرکاء ایک منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘     

 پوٹن اکثر اپنی تقاریر میں یوکرین پر حملے کو یورپ میں امریکی بالادستی کو شکست دینے کے لیے ایک بڑی جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ امکان ہے کہ ان کا یہ خیال بیجنگ کے پالیسی کے ساتھ جڑ جائے گا، جو ایشیا پیسیفک کے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے زور لگا رہا ہے، جہاں امریکہ طویل عرصے سے غالب رہا ہے۔

 فرانسیسی سیاسی تجزیہ کار ژاں مارک بیلنسی کے مطابق ان ممالک کا ''مغربی دور کو خاتمے کی طرف دھکیلنے کا ایک مشترکہ وژن ہے۔‘‘ لیکن اس تجزیہ کار کے بقول یہ وژن کس طرح حاصل کیا جائے گا یہ معاملہ بڑی حد تک غیر متعینہ ہے اور ''اس کے کئی منظرنامے ہیں کیونکہ یہ وژن رکھنے والے رہنماؤں کے اکثر مفادات متضاد ہوتے ہیں۔‘‘

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن ورتھیم نے اے ایف پی کو بتایا، ''بہت سے برکس اور ایس سی او ممالک کہتے ہیں کہ وہ ایک کثیر قطبی دنیا بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اہم اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم ورتھیم کے مطابق، ''مجھے شک ہے کہ ان ممالک کو یہ معلوم ہے کہ  وہ 20 سال کے عرصے میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

غریب ممالک ملٹی پولر دنیا کے حامی امیر ملکوں سے امداد تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی مکمل طور پر ان کے زیر تسلط بھی نہیں جانا چاہتےتصویر: Vincent Thian/REUTERS

ایک کثیر قطبی دنیا عملی طور پر کیسی دکھتی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اقتصادی محاذ پر کریملن اور چین تجارت کے لیے ڈالر کی جگہ ایک نئی کرنسی دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن کیا نئی دہلی ڈالر کے  یوآن  سے تبادلے کے لیے بے تاب ہوگا؟ اور کیا کوئی ملک غیر مستحکم روسی روبل کے ساتھ اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر قائم کرنے کے لیے تیار ہے؟

  تجزیہ کار  ورتھیم کا کہنا ہے، ''چھوٹے ممالک بڑی طاقتوں سے سکیورٹی اور اقتصادی امداد حاصل کرتے ہوئے اپنی خودمختاری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ ممالک  سرد جنگ کے طرز کے اتحادوں میں شامل ہونے جیسی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے کچھ فائدے تو اٹھا سکتے ہیں لیکن  پھر وہ اپنے سرپرست کے کنٹرول میں آنے کے خطرے سے بھی دوچار ہوں گے۔‘‘

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اسٹیمسن سنٹر میں چین اور مشرقی ایشیا پروگرام کے شریک ڈائریکٹر یون سن کے مطابق لفظ ''کثیر قطبی مساوات کو ظاہر کرتا ہے لیکن یہ گمراہ کن ہے۔‘‘ چین، بھارت اور روس ''امریکی غلبے کے بعض پہلوؤں سے ناخوش ہو سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کے  متبادل کے بارے میں بالکل ایک جیسا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔‘‘

ش ر⁄ اب ا (اے ایف پی)

برکس گروپ کے مقاصد کیا ہیں؟

09:45

This browser does not support the video element.

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں