انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں لوگ، خاص طور پر نوجوان کتاب اور مطالعے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر کراچی میں نوجوانوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کی ایک دلچسپ کوشش کی گئی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی اسٹریٹ لائبریری ہے۔
اشتہار
اسمارٹ موبائل اور انٹرنیٹ سے مضبوط رابطے نے نوجوانوں کا کتابوں کے مطالعے سے رشتہ کمزور کر دیا ہے اور اب بظاہر انہیں کتاب کی جانب راغب کرنا آسان نہیں۔ تاہم آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری کی بنیاد رکھ کر لوگوں میں مطالعے کا شوق جگانے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔
شہر کراچی کی معروف میٹروپول چورنگی پر اب سے کچھ عرصہ پہلے پیدل چلنے کے راستوں پر غیر قانونی تجاوزات کی بھر مار تھی۔ لیکن اب یہاں بانی پاکستان محمد علی جناح، فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے علاوہ ملک کی تاریخی عمارات پر مشتمل آرٹ ورک سے مزین ایک دیوار دیکھی جا سکتی ہے۔ اس دیوار کے درمیان لکڑی کی الماریاں بنائی گئی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔ یہ ہے پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری، آج کا افتتاح آج پچیس دسمبر کو کر دیا گیا ہے۔
یہ اسٹریٹ لائبریری حکومت سندھ اور کمشنر کراچی افتخار شلوانی کی مشترکہ کوشش ہے۔ اسٹریٹ لائبریری کے بارے میں کمشنر کراچی افتخار شلوانی کا کہنا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی علامتی لائبریری ہے، ''اس لائبریری کے قیام کا مقصد لوگوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کے علاوہ انہیں ایک ایسی پبلک پلیس دینا ہے، جس کا خیال عوام خود رکھ سکیں۔ یہاں ایک وقت میں تقریباً چھ سو کتابیں رکھی جائیں گی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب لو کتاب دو کی بنیاد پر یہ لائبریری کام کرے گی۔ یعنیِ اگر آپ اس لائبریری سے ایک کتاب لے رہے ہیں تو بدلے میں آپ کو یہاں اس شیلف میں اپنی ایک کتاب رکھنا ہو گی۔ یہاں کوئی لائبریریئن موجود نہیں ہو گا یعنیِ عوام کو یہاں آکر اپنی پسندیدہ کتاب لینے اور رکھنے کے نظام کو خود ہی ایمانداری سے دیکھنا ہو گا۔‘‘
اس وقت کمشنر کراچی کے زیر انتظام 41 لائبریریاں ہیں، جن میں سے صرف چند ہی فعال ہیں۔ اس صورتحال میں ایک علامتی لائبریری قائم کرنے کے بجائے پہلے ہی مجود کتب خانوں کا نظام پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟ اس حوالے سے کمشنر کراچی افتخار شلوانی کا کہنا ہے، ''ہم نے ایک کونسل برائے کراچی لائبریری بنائی ہے جو شہری انتظامیہ کے زیر انتظام کتب خانوں کا دورہ کر رہی ہے۔ ہم نے ان کتب خانوں کی بحالی کے لیے نجی سیکٹر سے بھی مدد حاصل کی ہے جن میں برٹش کونسل، یو ایس اور جاپانی ادارے شامل ہیں۔ ہم نے گزشتہ دس ماہ میں تقریباً دس کتب خانوں کو بہتر انداز میں فعال کیا ہے اور مزید پر کام جاری ہے۔‘‘
معروف شاعر اور کمشنر کراچی کی لائبریری کمیٹی کے رکن سحر انصاری کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں اگر لوگوں کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کی چھوٹے پیمانے پر بھی کوشش کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے، ''ایک وقت تھا جب اس شہر کی کئی عوامی اور نجی لائبریریوں میں تاریخ، ادب، سائنس اور دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب موجود ہوا کرتی تھیں۔ پرائیویٹ لائبریری رکھنا اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا تاہم اب کئی کتب خانے غیر فعال نظر آتے ہیں۔ بس اب کراچی میں فریئر ہال، ریگل چوک اور بیت المکرم مسجد کے اطراف موجود چند لوگ ایسے ہیں جو اب بھی یہاں پرانی کتابوں کی جانب عوام کو مائل کرنے کے لیے ہر اتوار کتابوں کے اسٹال سجاتے ہیں۔‘‘
قدیم اور جدید، دنیا کے سب سے خوب صورت کتب خانے
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ کہیں گنبدوں اور کہیں ناقابل فہم اڑن کھٹولوں کی اشکال جیسے یہ کتب خانے آج کتابوں کا عالمی دن منا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
راکھ سے اٹھتے ہوئے
شہزادی آنا امالیا لائبریری وائمر کا یہ نام 1991 میں رکھا گیا۔ اس سے قبل تین سو سال تک اس کا نام شاہی لائبریری تھا۔ اس کے مشہور زمانہ روکوکو ہال نامی عمارت آتش زدگی کا شکار ہو کر خاکستر ہو گئی تھی۔ 24 اکتوبر 2007 کو تاہم اسے تعمیر نو اور مرمت کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
فٹ بال کا میدان یا کتب خانہ؟
فکر مت کیجیے، اگر آپ کے پاس اسٹوڈنٹ کارڈ نہیں ہے، تب بھی ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی یہ لائبریری، آپ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ عمارت کی ڈھلوانی طرز پر بنائی گئی چھت پر گھاس اگائی گئی ہے۔ 42 میٹر بلند میں چار منزلیں ہیں اور ہر منزل کتابوں سے بھری ہے۔
تصویر: Nicholas Kane/Arcaid/picture alliance
گلِ لالہ کی لکڑی اور آبنوس
برطانوی اخبار ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ نے پرتگال کے کوئنبرا کے علاقہ میں بِبلوٹیکا ژوآنینا کو سن 2013 میں دنیا کی سب سے بہترین لائبریریوں کی فہرست میں رکھا تھا۔ یہ کتب خانہ پرتگال کے بادشاہ جان پنجم کے نام سے موسوم ہے، جنہوں نے اسے تعمیر کیا۔ اس لائبریری میں کتابوں کے تمام شیلف گلِ لالہ اور آبنوس کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/H. Champollion
روایت اور جدت کا امتزاج
دو ہزار برس قبل آگ کی نذر ہو جانے سے قبل اسکندریہ کا یہ کتب خانہ پوری دنیا میں مشہور تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کتب خانے میں پوری انسانیت کی مجموعی دانش دھری ہے۔ اسکندریہ کی یہ نئی لائبریری، اسی نسبت سے سن 2002ء میں عوام کے لیے کھولی گئی۔ اس پر دو سو بیس ملین ڈالر لاگت آئی۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
حنوط شدہ لاشوں کے درمیان
سینٹ گالیں، سوئٹزرلینڈ کی اس ایبے لائبریری میں چند حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں، جو قریب تیرہ سو برس پرانی ہیں۔ یہاں آنے والے کتابوں کے بیچوں بیچ ان کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہ یورپ کی قدیم ترین نقشے والی عمارات میں سے ایک ہے۔ بوشیرزال یا بک ہال کو یونیسکو نے سن 1983 میں عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Stuart Dee/robertharding
صدر نے بچایا
کانگریس کی اس لائبریری ضرور جائیے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اس لائبریری کی بنیاد 1800 میں رکھی گئی تھی مگر صرف 14 برس بعد اسے برطانیہ نے جلا ڈالا تھا۔ تھومس جیفرسن، جو امریکا کے تیسرے صدر تھے، نے اپنی ذاتی ملکیت کی کوئی ساڑھے چھ ہزار کتب فروخت کر کے اس کے لیے 24 ہزار ڈالر کا سرمایہ جمع کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
تصویر: picture-alliance/JOKER/H. Khandani
خیالِ بلوط
ڈبلن میں دو منزلہ عمارت اولڈ ٹرنیٹی کالج کی 64 میٹر لمبے اور 12 میٹر چوڑے کمرے پر مشتمل لائبریری ہے۔ یہ جگہ کبھی اتنی دل کش نہیں تھی، جیسی اب ہے۔ سن 1885 میں اس کی پلاسٹر والی چھت ہٹا کر بلوچ کی لکڑی سے اسے دوبارہ آراستہ کیا گیا۔
تصویر: Imago/imagebroker
چین میں سب کچھ بڑا ہے
چین کی نیشنل لائبریری میں تین کروڑ کتابیں ہیں۔ چین کا یہ کتب خانہ دنیا کے سات سب سے بڑے کتاب گھروں میں سے ایک ہے۔ اسے 1809 میں مرکزی کتب خانے کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، تاہم بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے بیجنگ لائبریری رکھ دیا گیا۔