طالبان کی طرف سے مکسڈ مارشل آرٹس پر پابندی عائد کرنے کے باوجود کچھ افغان نوجوان دارالحکومت کابل میں اس کھیل کی تربیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان ایتھلیٹس کی امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔
افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کے علاوہ جوڈ کراٹے بھی ایک مقبول کھیل ہےتصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
اشتہار
افغانستان میں بر سر اقتدار طالبان نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں مکسڈ مارشل آرٹس کو 'پرتشدد‘ اور 'شریعت سے متصادم‘ قرار دیتے ہوئے اس کھیل کے تمام پیشہ ورانہ مقابلوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اکیس سالہ خلیل رحمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''شروع میں جب ایک دوست نے مجھے بتایا کہ افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن جب میں کلب پہنچا تو میرے تمام دوست انتہائی مایوس تھے اور ظاہر ہے کہ میں بھی تھا۔‘‘
رحمان بین الاقوامی ایم ایم اے مقابلوں میں کامیابی حاصل کر کے 'دنیا میں افغانستان کا پرچم بلند کرنے‘ کا عزم رکھتے ہیں لیکن افغانستان میں اس کھیل کے تمام تر پیشہ ورانہ مقابلے منسوخ کر دیے جانے کے بعد وہ اور مشرقی کابل میں ان جیسے دیگر نوجوانوں کی پریشانی و بے زاری دیدنی ہے۔
افغانستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کے تربیتی اور شوقیہ مقابلے حفاظتی لباس کے ساتھ اب بھی منعقد کیے جا رہے کیونکہ کھلاڑی اب تک طالبان کی خیر و شر کا فیصلہ کرنے والی وزارت کے احکامات میں ان کھیلوں کے درست قواعد کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں ہے۔
کھیلوں پر پابندی پر افغان خواتین کا احتجاج
دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی افغان خواتین پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ افغان طالبان کی سختی کے باوجود کچھ خواتین ان پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی ہی کچھ خواتین نے بطور احتجاج یہ تصاویر بنوائیں۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo
خواتین کو الگ کرنے کی کوشش
اگست سن دو ہزار اکیس میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسلامی قوانین کی آڑ میں طالبان نے خواتین پر متعدد طرح کی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اب خواتین کھیلوں میں بھی حصہ نہیں لے سکتی ہیں۔ تاہم افغان خواتین طالبان کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ تصویر افغان خواتین کی سابق قومی فٹ بال ٹیم کی ہے، جنہیوں نے احتجاج کے طور پر یہ لباس پہن رکھا ہے، سب سے آگے ٹیم کی کوچ ہیں۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
’جو کھیلوں سے بھی ڈر گئے‘
یہ نوجوان افغان لڑکی اسکیٹنگ کی شوقین ہے۔ یہ بھی افغان طالبان کی پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ افغانستان میں خواتین اب نہ تو کسی سپورٹس کلب جا سکتی ہیں اور نہ ہی پارک۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسے دھمکیاں ملتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان ناجائز و غیرقانونی پابندیوں کی خلاف ورزی پر ان خواتین کے ساتھ کیا سلوک برتا جائے۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
افغان باکسنگ چیمپئن
بیس سالہ نورا بھی برقع پہن کر طالبان کی پابندیوں کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئی۔ نورا کو وہ دن اب بھی اچھی طرح یاد ہے، جب طالبان نے اگست سن 2021 میں کابل پر دھاوا بولا تھا۔ تب وہ کابل سپورٹس کلب میں میں ایک ایونٹ میں شریک تھی۔ جیسے ہی لوگوں کو علم ہوا کہ طالبان نے کابل پر حملہ کر دیا ہے تو تمام خواتین وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ یہ نورا کا آخری ٹورنامنٹ تھا۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
کابل چھوڑنے پر مجبور
باکسنگ چیمپئن نورا کابل کے ایک پسماندہ علاقے میں پلی بڑھیں۔ انہیں ہمیشہ سے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جب طالبان نے اس بیس سالہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو دھمکانا بند نہ کیا تو وہ سب کابل سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ نورا کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان کی واپسی ہوئی ہے، وہ خود کو مردہ محسوس کر رہی ہیں۔ تاہم وہ نہیں چاہتیں کہ یہ کیفیت ان کی موت تک برقرار رہے۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo
خاموش کرانے کی سوچی سمجھی کوشش
اس افغان خاتون سائیکلسٹ کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ طالبان تمام خواتین کو خاموش کرا دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے والا نہ رہے۔ خواتین اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ طالبان ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا چاہتی ہے، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
باسکٹ بال بھی ختم
افغان خواتین باسکٹ بال کو بھی بہت پسند کرتی ہیں۔ تاہم افغان طالبان اس حق میں نہیں کہ خواتین اس کھیل میں حصہ لیں۔ افغان نیشنل اولمپک کمیٹی کے ترجمان نے حال ہی کہا تھا کہ وہ خواتین کو کھیلوں کی اجازت دینے کے بارے میں غور کر رہے ہیں تاہم اس طرح کے بیان پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے ہیں۔
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
لیکن ابہام بھی ہے!
افغانستان کی اسپورٹس اتھارٹی نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم اس اتھارٹی سے وابستہ ایک شخص نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پابندی سے متعلق اس حکم نامے کا متن 'اس بارے میں مبہم ہے کہ اصل میں کس چیز پر پابندی عائد کی گئی ہے اور جنرل ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس اینڈ فزیکل ایجوکیشن نے وضاحت کی درخواست کی ہے‘۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو کسی بھی ملک نے اب تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی مقابلوں میں افغانستان کی شرکت کا عمل کچھ پیچیدہ ہی ہے۔ لیکن حال ہی میں دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو افغانستان میں خوش آمدید کہا گیا۔
حکام نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور مرد کھلاڑیوں کو ایک نئے اخلاقی قانون کے تحت ناف سے گھٹنے تک اپنے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اشتہار
افغان نوجوان بے چین ہو رہے ہیں
کابل میں ایک تاریک تہہ خانے میں واقع ایک کلب میں تربیت حاصل کرنے والے بلال فضلی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس پابندی کے نتیجے میں کلب آنے والے نوجوانوں کی تعداد میں فوری کمی دیکھ کر انہیں مایوسی ہوئی ہے۔
بلال فضلی نے کہا، ''سارے لڑکے ڈر گئے ہیں۔ حکومت کھیلوں پر پابندی لگانے کے بجائے غریبوں کی مدد جیسے دیگر اہم اچھے کام کر سکتی ہے۔‘‘
اکیس سالہ اس کھلاڑی نے مایوسی کے عالم میں مزید کہا، ''مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے، ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور اگر ہم اپنی پسند کے کھیل بھی نہیں کھیل سکتے ہیں، تو شاید ہمیں اس ملک کو ہی چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
ع ب/ ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)
افغان لڑکیوں کی ٹیم: ’فٹ بال کھیلنا آزادی کےمانند ہے‘