1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات اور اس کے آئندہ اہداف

1 جولائی 2021

چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے انیس سو اکیس میں قیام کو اس ہفتے ٹھیک سو سال ہو گئے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس جماعت کی کامیابیوں کی بھرپور تشہیر کر رہی ہے۔ لیکن کیا پارٹی کے ظاہر کے پیچھے کوئی باطنی کمزوری بھی چھپی ہے؟

100 years of Chinese Communist Party
صدر شی جن پنگ، اس ہفتے چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے کے عین وسط میںتصویر: Thomas Peter/Reuters

1921ء میں چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی ٹھیک ایک صدی پوری ہونے کے موقع پر آج جمعرات یکم جولائی کو ملک بھر میں لاتعداد تقریبات اور عوامی اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔ پارٹی قیادت کی کامیابیوں کی تشہیر کرنے والے بینرز اور بل بورڈز تو پورے ملک میں گزشتہ ہفتوں کے دوران ہی نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔

چین کو اب کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا، صدر شی جن پنگ

رواں ہفتے پیر کے روز سی سی پی کی طرف سے ملکی دارالحکومت بیجنگ کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت

چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس لیے کہ بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے، جس کے ارکان کی تعداد سی سی پی کے اراکین کی تعداد کا تقریباﹰ دو گنا بنتی ہے۔

بیجنگ میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی سو سالہ تقریبات میں سے بیجنگ میں منعقدہ مرکزی تقریب، ایک پرفارمنس کے شرکاء چینی کارکنوں کے لباس میںتصویر: Thomas Peter/Reuters

دو برس قبل 2019ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد 91.9 ملین تھی اور 1949ء کی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک یہ پارٹی چین میں حکمران چلی آ رہی ہے۔

عالمی سیاست کی 'صف اول‘ میں

سی سی پی کے بیرونی رابطہ کاری کے شعبے کے نائب سربراہ گُو ژےژُو نے رواں ہفتے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا، ''چینی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی اثر و رسوخ، اس کی کشش اور جاذبیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس نے اس جماعت کو عالمی سیاست کی صف اول میں پہنچا دیا ہے۔‘‘

اس پارٹی نے گزشتہ ایک صدی کے دوران مختلف جنگوں، قحط کے ادوار اور بحرانی سماجی حالات والے سالوں میں چین کی قیادت کی۔

گ‍زشتہ بیس برسوں کے دوران ملک کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے کئی ملین غریب اور فاقہ زدہ چینی شہریوں کو انتہائی غربت سے نکالا جا چکا ہے۔

یہ سماجی تبدیلی اور معاشرتی تحریک کا وہ دور تھا، جس نے عوامی جمہوریہ چین کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

تنقید فوراﹰ کچل دینے کی پالیسی

چین میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی پالسییوں پر کی جانے والی تنقید کو فوراﹰ کچل دیا جاتا ہے۔ چینی فوج کی بحیرہ جنوبی چین میں توسیع پسندانہ سرگرمیوں کی بین الاقوامی سطح پر بھرپور مذمت کی جاتی رہی۔

چین کی غربت کے خاتمے میں کامیابی، حقیقت یا سرکاری پروپیگنڈا

اسی طرح ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے اور مغربی چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی پالیسیوں اور برے سلوک کی بھی بین الاقوامی برداری کی طرف سے کھل کر مذمت کی جا رہی ہے۔

صدر شی جن پنگ اپنے اختیارات کی انتہا پر

سی سی پی کے قیام کی صد سالہ تقریبات میں ظاہر ہے ایسے تنقیدی نکات کا کہیں ذکر نہیں کیا جا رہا۔

جرمن دارالحکومت برلن میں قائم چینی علوم کے میرکاٹور انسٹیٹیوٹ (MERICS) کی تجزیہ کار ویلیری تان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کمیونسٹ پارٹی اپنی کامیابیوں کے جیتے جاگتے ثبوت پیش کرنا اور اپنے طرز حکومت کی پائیداری کو کھل کر دکھانا چاہتی ہے۔‘‘

ویلیری تان کہتی ہیں، ''سی سی پی کے قیام کی ایک صدی صرف اس جماعت کے لیے ہی ایک تاریخی موقع نہیں ہے۔ اس کی صدر شی جن پنگ کے لیے بھی بہت زیادہ سیاسی اہمیت ہے۔‘‘

چین کی قدیم تاریخ، قوم پرستوں کا ایک بہت اہم ’نفسیاتی ہتھیار‘

رواں ہفتے کے دوران چینی پارٹی عہدیداروں کی طرف سے صدر شی جن پنگ کی بہت زیادہ تعریف بھی کی گئیں، جو عوامی جمہوریہ چین کے بانی رہنما ماؤ زے تنگ کے بعد سے آج تک کے طاقت ور ترین چینی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔

سی سی پی کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے؟

ویلیری تان کہتی ہیں، ''چینی کمیونسٹ پارٹی چاہتی ہے کہ وہ دنیا کو دکھائے کہ کس طرح اس کا وضع کردہ نظام مالیاتی بحرانوں، قدرتی آفات، سیاسی اسکینڈلوں اور عالمی وبا تک پر قابو پانے میں نہ صرف کامیاب رہا ہے بلکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط بھی ہوا ہے۔‘‘

MERICS کی یہ تجزیہ کار کہتی ہیں، ''سی سی پی یہ بھی دکھانا چاہتی ہے کہ چین زیادہ سے زیادہ 2049ء تک سپر پاور بن جانے اور اپنی اس حیثیت کو تسلیم کروا لینے کا خواہش مند بھی ہے۔ یہ چین کا اپنے لیے طے کردہ وہ ہدف ہے، جس کا شی جن پنگ باقاعدہ تعین کر چکے ہیں۔‘‘

''یہی چین کی وہ ساکھ ہے، جس کی سی سی پی اپنے قیام کی صد سالہ تقریبات مناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تشہیر چاہتی ہے۔‘‘

کمیونسٹ پارٹی اور چینی تاریخ

اس سال فروری میں صدر شی نے سی سی پی کی ایک ترمیم شدہ تاریخ بھی جاری کر دی تھی۔ یہ کتابی صورت میں 500 صفحات پر مشتمل ہے اور پارٹی کی اس 'سرکاری‘ تاریخ کا عنوان ہے: ''چینی کمیونسٹ پارٹی کی مختصر تاریخ۔‘‘

ماؤ زے تنگ دور میں اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے جو 'بہت بڑا قحط‘ پھیلا تھا، وہ کروڑوں انسانوں کی موت کی وجہ بنا تھا۔ اس نئی کتاب میں اس کا صرف ایک بار ذکر کیا گیا ہے اور وہاں بھی اسے ایک 'قدرتی آفت‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس کتاب میں جس 'نئے دور‘ کے تصور کو 'تاج پوشی کی طرح کی حتمی پیش رفت‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس سے مراد چین کا مستقبل میں امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جانے کا منصوبہ ہے۔

وہ شخص، جو دس لاکھ ایغور مسلمانوں کی نظر بندی کے پیچھے ہے

جرمنی کی کولون یونیورسٹی کے چینی علوم کے ماہر فیلکس ویم ہوئر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ورلڈ سپر پاور بننے کی اسی خواہش کے تحت چین مستقبل میں 'اقتصادی، عسکری اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کا اول نمبر کا ملک‘ بننا چاہتا ہے۔

چین میں سی سی پی کی تاریخ کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب ایک نصابی کتاب ہے، جو یونیورسٹی سطح کے امتحانات کے لیے نصاب کا حصہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں چینی نوجوانوں کو اسی کتاب کی بنیاد پر تیار کیے گئے سینکڑوں سوالات اور ان کی جوابات زبانی یاد کرنا ہوں گے۔

شی جن پنگ کب تک اقتدار میں رہیں گے؟

شی جن پنگ 2012ء سے چینی صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اس عہدے پر تقرری کی زیادہ سے زیادہ مدت سے متعلق ہر قسم کی حدود ختم کر چکے ہیں۔ انہوں نو آج تک اپنا کوئی ممکنہ جانشین بھی نامزد نہیں کیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی موجودہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان کی اگلے برس اپنے عہدوں سے دستبرداری متوقع ہے۔ تب نئے رہنماؤں کے طور پر اس کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔

صدر شی کے نظریات اب چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین کا حصہ

اگلے برس کی پارٹی کانگریس کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہو گا کہ آیا صدر شی جن پنگماؤ زے تنگ کے لیے استعمال ہونے والا پارٹی چیئرمین کا ٹائٹل بحال کر دیں گے۔

ویلیری تان کے مطابق، ''پارٹی قیادت میں تبدیلی اور اس کی نوعیت کے حوالے سے اگلا سال بہت اہم ہو گا۔ اس بارے میں کافی بے یقینی پائی جاتی ہے کہ سیاسی قیادت کی یہ تبدیلی کیسی ہو گی اور آیا شی جن پنگ غیر معینہ مدت تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔‘‘

سُو جی برُنرزُم (م م / ک م)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں