چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات اور اس کے آئندہ اہداف
1 جولائی 2021
چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے انیس سو اکیس میں قیام کو اس ہفتے ٹھیک سو سال ہو گئے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس جماعت کی کامیابیوں کی بھرپور تشہیر کر رہی ہے۔ لیکن کیا پارٹی کے ظاہر کے پیچھے کوئی باطنی کمزوری بھی چھپی ہے؟
اشتہار
1921ء میں چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی ٹھیک ایک صدی پوری ہونے کے موقع پر آج جمعرات یکم جولائی کو ملک بھر میں لاتعداد تقریبات اور عوامی اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔ پارٹی قیادت کی کامیابیوں کی تشہیر کرنے والے بینرز اور بل بورڈز تو پورے ملک میں گزشتہ ہفتوں کے دوران ہی نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔
رواں ہفتے پیر کے روز سی سی پی کی طرف سے ملکی دارالحکومت بیجنگ کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
دنیا کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت
چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس لیے کہ بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے، جس کے ارکان کی تعداد سی سی پی کے اراکین کی تعداد کا تقریباﹰ دو گنا بنتی ہے۔
دو برس قبل 2019ء میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد 91.9 ملین تھی اور 1949ء کی خانہ جنگی کے بعد سے اب تک یہ پارٹی چین میں حکمران چلی آ رہی ہے۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
سی سی پی کے بیرونی رابطہ کاری کے شعبے کے نائب سربراہ گُو ژےژُو نے رواں ہفتے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا، ''چینی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی اثر و رسوخ، اس کی کشش اور جاذبیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس نے اس جماعت کو عالمی سیاست کی صف اول میں پہنچا دیا ہے۔‘‘
اس پارٹی نے گزشتہ ایک صدی کے دوران مختلف جنگوں، قحط کے ادوار اور بحرانی سماجی حالات والے سالوں میں چین کی قیادت کی۔
گزشتہ بیس برسوں کے دوران ملک کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں رہنے والے کئی ملین غریب اور فاقہ زدہ چینی شہریوں کو انتہائی غربت سے نکالا جا چکا ہے۔
یہ سماجی تبدیلی اور معاشرتی تحریک کا وہ دور تھا، جس نے عوامی جمہوریہ چین کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
تنقید فوراﹰ کچل دینے کی پالیسی
چین میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی پالسییوں پر کی جانے والی تنقید کو فوراﹰ کچل دیا جاتا ہے۔ چینی فوج کی بحیرہ جنوبی چین میں توسیع پسندانہ سرگرمیوں کی بین الاقوامی سطح پر بھرپور مذمت کی جاتی رہی۔
بعد از مرگ محفوظ رکھی گئی کمیونسٹ رہنماؤں کی نعشیں
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کمیونسٹ رہنماؤں کو اپنی زندگی میں اپنے تشخص کے ساتھ خاص لگاؤ رہا ہے۔ شاید اسی تناظر میں اُن کی رحلت کے بعد بھی اُن کے جسموں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ropi
چیئرمین ماؤ
ماؤ زے تنگ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کی با اثر ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ چین کا عالمی طاقت بننا ہے۔ اس کوشش میں سات کروڑ افراد کی جانیں ضرور ضائع ہوئی تھیں۔ سن 1976 میں ماؤ زے تنگ کی رحلت ہوئی تھی اور اُن کے آخری دیار کے لیے دس لاکھ افراد پہنچے تھے۔ ان کی نعش کو محفوظ کر کے بیجنگ میں اُن کے مزار میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ropi
کِم اِل سُنگ
شمالی کوریا کے پہلے لیڈر کِم اِل سُنگ تھے۔ انہیں کمیونسٹ اسٹیٹ قائم کرنے کے بعد کوریائی جنگ کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ شمالی کوریا سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد شدید قحط سالی کا شکار ہو گیا تھا۔ وہ بیاسی برس کی عمر میں سن 1994 میں فوت ہوئے تھے۔ دس روزہ سوگ کے بعد اُن کی نعش کو بھی محفوظ کر کے ایک مزار میں رکھا گیا ہے جو کُمسُوسان پیلس میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/KCNA
کم جونگ اِل
شمالی کوریا میں کِم اِل سُنگ کی رحلت کے بعد اُن کے بیٹے کِم جونگ اِل نے جابرانہ نظام حکومت برقرار رکھا۔ وہ بھی اپنی ذات کو اپنی عوام میں عقیدت مندی کی انتہا تک پہنچانے کی کوشش میں رہے۔ سن دو گیارہ میں ہارٹ اٹیک کے باعث وہ دم توڑ گئے۔ انہیں مرنے کے بعد ابدی رہنما‘ قرار دیا گیا۔ ان کی نعش کو بھی محفوظ کر کے کُمسُوسان پیلس میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/KCNA
ہو چی منہہ
ہو چی منہہ نے ویتنام میں فرانسیسی نوآبادیاتی حکومت کو شکست دی اور شمالی ویتنام کو جنوبی ویتنام سے ملانے کی جنگ شروع کی لیکن حتمی فتح سے پہلے ہی وہ فوت ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ مرنے کے بعد ان کی نعش کو جلا کر خاک ملک کی تین پہاڑیوں پر بکھیری جائے لیکن ان کی نعش کو محفوظ کر کے ہنوئی میں واقع ایک مزار میں رکھا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان کی ناک گل سڑ گئی ہے اور داڑھی بھی چہرے سے علیحدہ ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ولادیمیر لینن
سابقہ سوویت یونین کے بانی لیڈروں میں سب سے نمایاں ولادیمیر لینن تھے۔ وہ اکتوبر سن 1017 کے بالشویک انقلاب کے بھی سرخیل تھے۔ اُن کے دور کو سرخ خوف کا عہد قرار دیا جاتا ہے اور اس میں انقلاب مخالف ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا وہ بیمار ہو کر سن 1924 میں رحلت پا گئے۔ اُن کا دماغ نکال کر بقیہ نعش کو محفوظ کر دیا گیا تھا۔ لینن کا مزار روسی دارالحکومت ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
5 تصاویر1 | 5
اسی طرح ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے اور مغربی چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی پالیسیوں اور برے سلوک کی بھی بین الاقوامی برداری کی طرف سے کھل کر مذمت کی جا رہی ہے۔
اشتہار
صدر شی جن پنگ اپنے اختیارات کی انتہا پر
سی سی پی کے قیام کی صد سالہ تقریبات میں ظاہر ہے ایسے تنقیدی نکات کا کہیں ذکر نہیں کیا جا رہا۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم چینی علوم کے میرکاٹور انسٹیٹیوٹ (MERICS) کی تجزیہ کار ویلیری تان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کمیونسٹ پارٹی اپنی کامیابیوں کے جیتے جاگتے ثبوت پیش کرنا اور اپنے طرز حکومت کی پائیداری کو کھل کر دکھانا چاہتی ہے۔‘‘
ویلیری تان کہتی ہیں، ''سی سی پی کے قیام کی ایک صدی صرف اس جماعت کے لیے ہی ایک تاریخی موقع نہیں ہے۔ اس کی صدر شی جن پنگ کے لیے بھی بہت زیادہ سیاسی اہمیت ہے۔‘‘
رواں ہفتے کے دوران چینی پارٹی عہدیداروں کی طرف سے صدر شی جن پنگ کی بہت زیادہ تعریف بھی کی گئیں، جو عوامی جمہوریہ چین کے بانی رہنما ماؤ زے تنگ کے بعد سے آج تک کے طاقت ور ترین چینی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔
سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس
چینی حکومت نے 1989ء میں جمہوریت کے حق میں نکالے جانے والے مظاہروں کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم AP کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر چند دیگر صحافیوں کی طرح کچھ یادگار لمحات محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی دیوی
چار جون کو سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اُسی مقام پر جہاں چار جون 1989ء کو جمہوریت نواز مظاہرین کی ایک ریلی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، وہیں فوجی دستوں نے 33 فٹ لمبے اس زیر تعیمر مسجمے کو بھی مسمار کر دیا تھا، جیسے ’جمہوریت کی دیوی‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: Jeff Widener/AP
نغمہ سرا خاتون پولیس اہلکار
چینی سکیورٹی فورسز کے خونی کریک ڈاؤن سے قبل پُرتناؤ ماحول میں مقامی شہری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو اکثر تحائف بھی پیش کرتے تھے۔ کبھی کبھار سکیورٹی اہلکار بھی مظاہرین کے ساتھ مل کر حب الوطنی پر مبنی گیت گنگنایا کرتے تھے۔ سانحہ تیانمن اسکوائر سے کچھ روز قبل ایک خاتون پولیس اہلکار مظاہرین کے ساتھ مل کر ایک ملی ترانہ گا رہی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جدوجہد
چارجون 1989 کو سکیورٹی فورسز نے تیانمن اسکوائر پر قابض جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران سینکڑوں شہری مارے بھی گئے تھے۔ اس عسکری کارروائی سے ایک روز قبل پولیس اہلکار ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے۔ بعد ازاں اُسی رات فوج نے تیانمن اسکوائر پر جمع مظاہرین پر بلا تخصیص فائرنگ شروع کر دی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
چھینے ہوئے ہتھیار
تیانمن اسکوائر پر فوجی کارروائی سے کچھ دن قبل لی گئی ایک تصویر۔ جمہوریت نواز مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔ ایک بس کی چھت پر رکھے گئے ان ہتھیاروں کو دیکھنے کے لیے ہزاروں مظاہرین وہاں جمع ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی خاطر جنگ
تین جون کی رات ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک بکتر بند فوجی گاڑی پر موجود مظاہرین۔ مظاہرین کی طرف سے تیانمن اسکوائر پر لگائی گئی رکاوٹوں کو اسی گاڑی نے روند ڈالا تھا۔ اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چینی فوجی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرنے کی تیاری میں تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جلتی ہوئی بکتر بند گاڑی
تین جون کی رات کو ہی جمہوریت نواز مظاہرین نے تیانمن اسکوائر کے نواح میں واقع چنگ اَن ایونیو میں ایک فوجی گاڑی کو نذر آتش کر دیا تھا۔ فوٹو گرافر جیف وائڈنر کی طرف سے لی گئی یہ آخری تصویر تھی، جس کے بعد ان کے چہرے پر ایک پتھر آن لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
کریک ڈاؤن
چار جون کو پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی بیجنگ ہوٹل کے بالکل سامنے واقع چنگ اَن ایونیو میں گشت کرتے ہوئے۔ اُس وقت تک طالب علموں کی طرف سے جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو کچلا جا چکا تھا۔ اُسی دن فوج نے بیجنگ ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہوئے سیاحوں پر بھی فائرنگ کی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ٹینکوں کے سامنے کھڑا تنہا شخص
خونی کریک ڈاؤن کے ایک دن بعد ہی ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے ایک نامعلوم شخص نے چنگ اَن ایونیو میں ٹینکوں کو عارضی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ شخص ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ یہ کون تھا اور اب کہاں ہے۔ اس سانحے کے دوران لی جانے والی تصاویر میں یہ ایک انتہائی مقبول تصویر شمار کی جاتی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ہیروز، جو ہلاک ہو گئے
پانچ جون 1989ء کو چنگ اَن ایونیو میں جمع ہونے والے افراد ایک روز قبل ہونے والے خونی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہو جانے والے مظاہرین کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
خاکروب
چار جون کے سانحے کے ایک روز بعد چنگ اَن ایونیو پر صفائی کا کام کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر بسوں اور فوجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک یا زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ماؤ کی ’حفاظت‘
جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد تیانمن اسکوائر پر فوجی اور ٹینک تعینات کر دیے گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
’شہرِ ممنوعہ‘
بیجنگ کے وسطی علاقے ’شہر ممنوعہ‘ میں لی گئی ایک تصویر، جس میں اے پی کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر (بائیں) اور لِیو ہیونگ ِشنگ مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بے خبر تھے کہ کچھ دن بعد ہی چینی فورسز طاقت کے بل پر جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والی ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
12 تصاویر1 | 12
سی سی پی کیا ظاہر کرنا چاہتی ہے؟
ویلیری تان کہتی ہیں، ''چینی کمیونسٹ پارٹی چاہتی ہے کہ وہ دنیا کو دکھائے کہ کس طرح اس کا وضع کردہ نظام مالیاتی بحرانوں، قدرتی آفات، سیاسی اسکینڈلوں اور عالمی وبا تک پر قابو پانے میں نہ صرف کامیاب رہا ہے بلکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط بھی ہوا ہے۔‘‘
MERICS کی یہ تجزیہ کار کہتی ہیں، ''سی سی پی یہ بھی دکھانا چاہتی ہے کہ چین زیادہ سے زیادہ 2049ء تک سپر پاور بن جانے اور اپنی اس حیثیت کو تسلیم کروا لینے کا خواہش مند بھی ہے۔ یہ چین کا اپنے لیے طے کردہ وہ ہدف ہے، جس کا شی جن پنگ باقاعدہ تعین کر چکے ہیں۔‘‘
''یہی چین کی وہ ساکھ ہے، جس کی سی سی پی اپنے قیام کی صد سالہ تقریبات مناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تشہیر چاہتی ہے۔‘‘
کمیونسٹ پارٹی اور چینی تاریخ
اس سال فروری میں صدر شی نے سی سی پی کی ایک ترمیم شدہ تاریخ بھی جاری کر دی تھی۔ یہ کتابی صورت میں 500 صفحات پر مشتمل ہے اور پارٹی کی اس 'سرکاری‘ تاریخ کا عنوان ہے: ''چینی کمیونسٹ پارٹی کی مختصر تاریخ۔‘‘
چین اور تائیوان: بظاہر دو بہترین دشمن؟
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
تصویر: ROC
14 تصاویر1 | 14
ماؤ زے تنگ دور میں اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے جو 'بہت بڑا قحط‘ پھیلا تھا، وہ کروڑوں انسانوں کی موت کی وجہ بنا تھا۔ اس نئی کتاب میں اس کا صرف ایک بار ذکر کیا گیا ہے اور وہاں بھی اسے ایک 'قدرتی آفت‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس کتاب میں جس 'نئے دور‘ کے تصور کو 'تاج پوشی کی طرح کی حتمی پیش رفت‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس سے مراد چین کا مستقبل میں امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جانے کا منصوبہ ہے۔
جرمنی کی کولون یونیورسٹی کے چینی علوم کے ماہر فیلکس ویم ہوئر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ورلڈ سپر پاور بننے کی اسی خواہش کے تحت چین مستقبل میں 'اقتصادی، عسکری اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کا اول نمبر کا ملک‘ بننا چاہتا ہے۔
چین میں سی سی پی کی تاریخ کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب ایک نصابی کتاب ہے، جو یونیورسٹی سطح کے امتحانات کے لیے نصاب کا حصہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں چینی نوجوانوں کو اسی کتاب کی بنیاد پر تیار کیے گئے سینکڑوں سوالات اور ان کی جوابات زبانی یاد کرنا ہوں گے۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
شی جن پنگ کب تک اقتدار میں رہیں گے؟
شی جن پنگ 2012ء سے چینی صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ اس عہدے پر تقرری کی زیادہ سے زیادہ مدت سے متعلق ہر قسم کی حدود ختم کر چکے ہیں۔ انہوں نو آج تک اپنا کوئی ممکنہ جانشین بھی نامزد نہیں کیا۔
چینی کمیونسٹ پارٹی کی پولٹ بیورو کی موجودہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے ارکان کی اگلے برس اپنے عہدوں سے دستبرداری متوقع ہے۔ تب نئے رہنماؤں کے طور پر اس کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔
اگلے برس کی پارٹی کانگریس کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ ہو گا کہ آیا صدر شی جن پنگماؤ زے تنگ کے لیے استعمال ہونے والا پارٹی چیئرمین کا ٹائٹل بحال کر دیں گے۔
ویلیری تان کے مطابق، ''پارٹی قیادت میں تبدیلی اور اس کی نوعیت کے حوالے سے اگلا سال بہت اہم ہو گا۔ اس بارے میں کافی بے یقینی پائی جاتی ہے کہ سیاسی قیادت کی یہ تبدیلی کیسی ہو گی اور آیا شی جن پنگ غیر معینہ مدت تک اقتدار میں رہ سکیں گے۔‘‘
سُو جی برُنرزُم (م م / ک م)
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔