104 سالہ سائنسدان کو اُن کی خواہش پر ابدی نیند دے دی گئی
10 مئی 2018
عالمی شہرت کے حامل ماہر نباتیات اور ایکلوجسٹ ڈاکٹر گوڈال کو سوئٹزرلینڈ کے ایک شہر میں دس مئی کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ انہیں اس خودکشی کے سلسلے میں ایک کلینک میں طبی معاونت فراہم کی گئی تھی۔
اشتہار
سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل کے لائف سرکل کلینک کے ذرائع کے مطابق ایک صدی سے زائد جینے والے سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُن کو جب زندگی ختم کرنے والا انجیکشن لگایا گیا تو اُس وقت خاص طور پر جرمن لیجنڈری موسیقار بیتھوون کی نویں سمفنی بجائی جا رہی تھی۔ یہ سمفنی بھی اُن کی ہمیشہ سے پسندیدہ ترین اشیاء میں سے تھی۔
ڈاکٹر گوڈال کو رضاکارانہ موت دی گئی تو اُن کے بستر کے قریب اُن کے چار نواسے نواسیاں اور ایک دوست موجود تھا۔ انہوں نے اپنا آخری کھانا ’فِش اینڈ چپس‘ کھایا، جو ہمیشہ سے انہیں مرغوب تھا۔ یہ انہوں نے بدھ کی رات میں اُس ہوٹل میں کھایا، جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔
رضاکارانہ موت کا پرچار کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ایگزٹ انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر فلپ نیٹشکے نے آج دس مئی کو دوپہر ساڑھے بارے بجے، اُن کی کو موت کی باقاعدہ تصدیق کی۔ نیٹشکے نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر گوڈال نے اپنی موت سے قبل رضاکارنہ موت حاصل کرنے کی وجوہات مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے بیان کیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فلپ نیٹشکے نے یہ بھی بتایا کہ جب ڈاکٹر گوڈال کو انجیکشن لگا دیا گیا تو انہیں گہری نیند میں جانے کے لیے تیس چالیس سیکنڈ کا وقت درکار تھا تو اُس کے انتظار میں بس وہ یہی کہہ سکے ’’کتنا عذاب ناک انتظار ہے‘‘۔ یہی اُن کے آخری الفاظ تھے اور پھر چند ثانیوں کے بعد وہ ایسی نیند میں چلے گئے جہاں سے واپسی نہیں تھی۔ ڈاکٹر گوڈال نے کوئی مذہبی سروس کے انعقاد سے بھی منع کیا۔
وہ بازل شہر کے نواحی شہر لیسٹال میں واقع ایٹرنل لائف کلینک میں آج جمعرات دس مئی کی صبح گیارہ بجے سے کچھ دیر قبل پہنچے۔ اُن کی موت گہری نیند کا انجیکشن لگانے کے بعد صبع گیارہ بج کر چالیس منٹ پر ہوئی۔
اسی تنظیم نے ڈاکٹر گوڈال کے سوئٹزرلینڈ پہنچنے کے لیے دس ہزار ڈالر کا چندہ بھی جمع کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ برطانوی سائنسدان ڈاکٹر گوڈال ایگزٹ انٹرنیشنل کے قیام کے بعد رکنیت حاصل کرنے والے پہلے باضابطہ رکن تھے۔
ڈاکٹر گوڈال کی آخری مصروفیات میں اُن کی جانب سے راضاکارانہ موت یا معاونت کے ساتھ خودکشی (AVD) کرنے کی دستاویز پر دستخط کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات کے ساتھ ملاقات بھی بدھ کی شام میں شامل تھی۔ بدھ ہی کی شام میں انہیں ایک ایسی دوا بھی دی گئی تا کہ انہیں رات یا صبح قے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔