اطالوی کوسٹ گارڈ کے مطابق پیر مورخہ اٹھائیس نومبر کو لیبیا کے ساحل سے دور بحیرہء روم میں 14 سو تارکینِ وطن کو سمندر بُرد ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ سمندر کے راستے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں امسال اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
امدادی کارروائیاں مربوط کرنے پر مامور اطالوی بحریہ کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ایک مشکل دِن تھا لیکن شکر ہے کہ امدادی تنظیموں کی مدد سے تمام تارکینِ وطن کو بچا لیا گیا۔‘‘ بحری سفر کے لیے نا موزوں کشتیاں اور گنجائش سے زائد افراد کے باعث تارکینِ وطن کا سمندری سفر اگرچہ موسمِ گرما میں بھی خطرناک ہوتا ہے تاہم موسمِ سرما میں جسمانی درجہء حرارت معمول سے کم ہونے اور سمندر کی طاقتور لہروں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
گزشتہ روز تارکینِ وطن کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیوں میں اٹلی، آئر لینڈ اور فلاحی تنظیموں کے جہازوں نے حصہ لیا۔ علاوہ ازیں چند تجارتی جہاز بھی امدادی کام میں شامل تھے۔ یہ مہاجرین گیارہ بڑی اور دو چھوٹی کشتیوں میں سوار تھے۔
اٹلی میں حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس سمندر کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ سن 2016 ختم ہونے میں ایک ماہ ابھی باقی ہے۔ اِس سال بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکہتر ہزار بتائی گئی ہے جبکہ سن دو ہزار چودہ کے سابقہ سالانہ ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ایک سو تھی۔
اطالوی حکام کے مطابق اِن اعداد وشمار میں گزشتہ روز بچائے جانے والے چودہ سو پناہ گزینوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی کا قصد کرنے والے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد افریقی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
اِن مہاجرین کا سفر لیبیا کے ساحلوں سے شروع ہوتا ہے جس کے لیے انسانی اسمگلروں کو کئی سو امریکی ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ متعدد تارکینِ وطن شمالی یورپی ممالک جانے کے ارادے سے اٹلی پہنچتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے افراد کی من چاہی منزل جرمنی یا سویڈن جیسے ممالک ہوتے ہیں۔
عالمی تنظیم برائے مہاجرت اور مہاجرین کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس بحیرہء روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے یا لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 4690 ہے۔
لامپے ڈوسا کے مہاجرین کی یاد میں
لامپے ڈوسا بحیرہ روم میں وہ جزیرہ ہے جہاں یورپ جانے کے خواہشمند افراد پہنچتے ہیں۔ سینیگال کے محمدو با پرتگال میں رہتے ہیں اور لامپے ڈوسا جا چکے ہیں۔ ان کی تصاویر میں مہاجرین کے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
لامپے ڈوسا، یورپ کا دروازہ
اطالوی جزیرہ لامپے ڈوسا، یورپ پہنچنے کے خواہشمند اکثر افراد کے لیے یورپ کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سینیگال سے تعلق رکھنے والے محمدو با انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں اور وہ ’ایس او ایس راسِسمو‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تصاویر میں لامپے ڈوسا یا اس کے قریبی سمندر میں مہاجرین کے حالات دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: Mamadou Ba
بحری جہازوں کا قبرستان
لامپے ڈوسا کو جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں موجود بہت سی کشتیوں کے ذریعے مہاجرین اس جزیرے تک پہنچے ہیں۔ اس جزیرے تک پہنچنے کی کوشش میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
تصویر: Mamadou Ba
بہتر زندگی کی تلاش میں موت کا شکار
لامپے ڈوسا کو اب ہزاروں مہاجرین کا قبرستان بھی سمجھا جاتا ہے۔ محمدو با کے مطابق یہ لوگ صرف اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے کیونکہ یہ بہتر زندگی جینا چاہتے تھے۔ ایسے مہاجرین کی زیادہ تر تعداد اریٹیریا اور صومالیہ سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
مرنے والوں کے نشانات
ایسے لوگ جو یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہو پاتا ہے۔ ڈوبنے والے جہازوں سے حاصل کیے جانے والے یہ کپڑے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں میں سے بعض کس طرح کے لباس میں ہو ں گے۔
تصویر: Mamadou Ba
انسانوں کی نشانیاں
لامپے ڈوسا پر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی موجود ہے جہاں تباہ ہونے والے جہازوں کے مسافروں کی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں پاسپورٹ اور ذاتی استعمال کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ محمدو با کے مطابق ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مہاجرین سادہ سے لوگ تھے اور سادہ سے خواب رکھتے تھے۔
تصویر: Mamadou Ba
روزانہ کا معمول
مہاجرین اپنی عادات اور ثقافت بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ مثلاﹰ اس جزیرے پر پہنچنے والے یہ برتن۔ تاہم ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ یہ بحیرہ روم کو پار کرتے ہوئے موت کا شکار ہونے والے افراد سے تعلق رکھتے ہیں یا زندہ سلامت لامپے ڈوسا تک پہنچنے والوں سے۔
تصویر: Mamadou Ba
گمشدہ زندگی کی یاد
نو کلومیٹر طویل یہ جزیرہ مہاجرین کی یاد تازہ کرتا ہے۔ لامپے ڈوسا اطالوی جزیرے سسلی سے 205 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ تیونس کے دارالحکومت سے محض 130 کلومیٹر کے فاصلے پر۔ اسی باعث یورپ میں داخلے کے لیے یہ جزیرہ آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
یورپ کا قلعہ
دوسری عالمی جنگ کے دوران تعمیر ہونے والا یہ بَنکر اب یورپی یونین کی علامت کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ تارکین وطن سے متعلق پالیسی میں تبدیلی لائی جائے۔
تصویر: Mamadou Ba
لامپے ڈوسا، امیدوں کا سہارا
بحیرہ روم کا یہ جزیرہ سِسلی اور شمالی افریقہ کے درمیان موجود ہے۔ اس جزیرے پر پہنچنے والے لوگ بہتر مستقبل کی امیدیں لگائے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین سے متعلق پالیسی میں تبدیلی مہاجرین کی اس تعداد میں کمی کا باعث بنے گی۔