18 قیراط سونے سے بنا ٹوائلٹ، ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس
22 نومبر 2025
یہ رجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سونا کس طرح ضرورت سے زیادہ نمود و نمائش اور سماجی اثرات کا استعارہ بن چکا ہے۔
سونے کی کشش صدیوں پر محیط ہے۔ ہر تہذیب نے اسے نہ صرف مالی قدر بلکہ علامتی طاقت کے طور پر اپنایا۔ آج بھی یہ دولت اور اختیار کا سب سے نمایاں مظہر ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھ جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ محض ذاتی پسند ہے یا طاقت کے مظاہرے کا ایک شعوری حربہ ہے؟
یہ رجحان آرٹ اور سیاست دونوں میں جھلکتا ہے۔ اطالوی فنکار ماریزیو کیٹیلان کا ڈیزائن کردہ سونے کا ٹوائلٹ، جسے نیلامی میں لاکھوں ڈالر میں فروخت کیا جا رہا ہے، ضرورت سے زیادہ دولت کی نمائش سمجھا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ٹرمپ کا سونے سے جنون کی حد تک لگاؤ ایک وسیع تر ثقافتی اور نفسیاتی بیانیے کا حصہ ہے، جو دولت، حیثیت اور اثرورسوخ کے اظہار کو نئی جہت دیتا ہے۔
سونے کا قدیم جنون: طاقت، حیثیت اور شناخت کی علامت
سونے کے ساتھ انسان کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ قدیم تہذیبوں میں سونے کی سب سے پہلی دریافت تقریباً 6,500 سال پہلے کی ہے، جسے ''ورنا گولڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نوادرات 1972 میں بلغاریہ کے ایک تدفینی مقام سے ملے، جن میں زیورات، آرائشی اشیاء، اوزار، ہتھیار اور حتیٰ کہ سونے کا ایک مخصوص غلاف بھی شامل تھا۔ یہ تمام اشیاء چند قبروں میں موجود تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس دور میں بھی سماجی درجہ بندی موجود تھی اور سونا طاقت، حیثیت اور دولت کی علامت تھا۔
یہ رجحان صرف یورپ تک محدود نہیں تھا۔ جنوبی افریقہ کے موجودہ علاقے میں قائم مپنگوبوے سلطنت (1050-1270 عیسوی) میں بھی اسی طرح کی دریافتیں ہوئیں، جو سماجی مرتبے کے اظہار میں سونے کے کردار کو ظاہر کرتی ہیں۔ انکا اور ازٹیک سلطنتوں میں تو قانوناً یہ طے تھا کہ کون سونا پہن سکتا ہے اور کون نہیں۔
ازٹیک سلطنت کو اصل میں "Triple Alliance" کہا جاتا تھا۔ یہ اتحاد 1428ء میں قائم ہوا اور 1521ء تک قائم رہا، جب ہسپانوی فاتح ہیرنان کورٹیز اور اس کے اتحادیوں نے اسے شکست دی۔
ازٹیک لوگ خود کو Culhua-Mexica کہتے تھے اور Aztec نام ان کے اساطیری وطن Aztlán سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے ''سفید زمین‘‘ یا ''سفید بگلے کی سرزمین‘‘ ہے۔
میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ کی ماہر جوآن پلسبری کے مطابق،''ایسے زیورات بڑی حد تک شناخت قائم کرنے کے لیے تھے جبکہ یہ حیثیت، امتیاز اور برتری کے اظہار کا ذریعہ تھے۔‘‘
سونا: دیوتاؤں کی دھات
سونے کی خاص اہمیت ہمیشہ سے الوہیت سے جڑی رہی ہے۔ دنیا بھر میں سونے نے حکمرانوں کے شاہی لباس، گرجا گھروں کے گنبدوں، میناروں اور مندروں کے سامنے والے حصوں کو سجایا ہے، جو شاہانہ، آسمانی اور لازوال حیثیت کی علامت ہے۔
قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ دیوتاؤں کا گوشت سونے کا ہے، جبکہ قدیم لاطینی امریکی تہذیبیں اسے زمینی اور ماورائی دنیا کے درمیان پل سمجھتی تھیں۔
یونانیوں نے تو سونے کو ایک دیوتا کے طور پر مجسم کیا، جسے کراسوس کہا جاتا تھا۔
یونانی شاعر پنڈار نے پانچویں صدی قبل مسیح میں لکھا تھا، ''سونا زیوس کا بچہ ہے، نہ کیڑا اور نہ ہی زنگ اسے کھا سکتا ہے، لیکن اس قیمتی ملکیت کا جنون انسان کے ذہن کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس وقت بھی سونے کا جنون موجود تھا۔‘‘
کیا کسی مثبت چیز کی زیادتی منفی تاثر پیدا کر سکتی ہے؟
استعارے کے طور پر بھی سونے سے بڑھ کر کچھ نہیں لگتا۔ سوچیں ''گولڈن بوائے/گرل، ایز گُڈ ایز گولڈ، سائلنس اِز گولڈن اور ہارٹ آف گولڈ،‘‘ جیسے محاورے موجود ہیں۔
لیکن اپنی لازوال خوبصورتی اور قدر کے باوجود سونے کی مثبت علامتوں کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ ضرورت سے زیادہ اور غلط انداز میں استعمال ہو تو اپنی چمک کھو دیتا ہے اور منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔
یونانی بادشاہ مائیڈس شاید اس کی سب سے پرانی مثال ہے۔ ایک دیومالائی کہانی کے مطابق دیوتاؤں نے اسے یہ طاقت دی تھی کہ وہ جس چیز کو چھوئے، وہ سونے میں بدل جاتی تھی۔ یہ چیز نعمت کی بجائے لعنت ثابت ہوئی کیونکہ اس کا کھانا اور حتیٰ کہ اس کے اہلِ خانہ بھی سونے میں تبدیل ہو گئے۔
جدید دور میں بھی سونے کی نمود و نمائش اکثر ذوق یا وقار کی کمی ظاہر کرتی ہے، چاہے یہ دولت کو نمایاں کیوں نہ کرے۔ مثال کے طور پر بھارتی بزنس مین دتّا پھوگے نے 2013 ء میں تین کلو (6.6 پاؤنڈ) سونے کی بنی قمیض پہن کر شہرت حاصل کی، جس کی قیمت اُس وقت تقریباً 2.5 لاکھ ڈالر تھی۔ کچھ لوگوں نے اسے سراہا لیکن کئی نے اسے حد سے زیادہ قرار دیا۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے اوول آفس کی سنہری آرائش کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ افواہیں ہیں کہ یہ اصل نہیں بلکہ ہوم ڈپو سے لی گئی پلاسٹک کی پینٹڈ ڈیکوریشنز ہیں۔ ایک دورے کے دوران فاکس نیوز کے میزبان نے براہِ راست پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے؟
ٹرمپ نے اسے رد کرتے ہوئے کہا: ''آپ جانتے ہیں کہ سونے کی ایک خاص بات ہے۔ آپ سونے کی نقل نہیں کر سکتے، اصلی سونے کی۔ کوئی پینٹ سونے کی نقل نہیں کر سکتا۔‘‘
شاید سونے کی لازوال قدر اور اس کے بھڑکیلے پن کو مورخ پیٹر برنسٹین کے اس جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے، ''سونے جیسی بیک وقت بیکار اور کارآمد شے کچھ نہیں۔‘‘ یہ بات اُس شخص کو بتانی چاہیے، جو گولڈن ٹائلٹ خریدنے والا ہے۔
ادارت: امتیاز احمد