1989ءکا آپریشن درست تھا: سابق چینی وزیراعظم
4 جون 2010یہ بات سابق چینی وزیراعظم لی پَینگ کی یاداشتوں پر مبنی ایک تصنیف میں سامنے آئی ہے۔ ان مظاہروں کو کچلنے میں ڈینگ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس واقعے کے 21 برس بعد بھی چین میں اس حوالےسے کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ڈینگ سیاؤ پِنگ کے مطابق کبھی کبھی حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں، جہاں حکومت کے پاس ’کچھ افراد کا خون بہانے‘ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ سخت نظریات کے حامی سمجھے جانے والے لی پَینگ کے دور حکومت میں طلبہ نے چین بھر میں اصلاحات کے لئے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تھا، تاہم سخت فوجی کارروائی کے ذریعے اس احتجاج کو کچل دیا گیا تھا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔
اس مظاہروں کے دوران سب سے اہم اور خونریز ترین واقعہ بیجنگ میں ابدی امن کے چوک یاTiananmen Square پر جمع ہونے والے ہزار ہا طلبہ کے خلاف کارروائی تھی۔ چار جون سن 1989ء کو یہ نوجوان مظاہرین چین میں جمہوریت کے حق میں اور بدعنوان حکام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر فوجی دستوں نے مارشل لاء کی خلاف ورزی کے جرم کو جواز بنا کر سینکڑوں طلبہ کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان ہلاک شدگان کی مصدقہ تعدادآج تک ظاہر نہیں کی گئی۔
سابق وزیر اعظم لی پَینگ کی یاداشتوں پر مبنی اس نئی کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ اس واقعے سے چند روز قبل 19 مئی کو ڈینگ سیاؤ پَنگ نے حکام سے بات چیت میں کہا تھا: ’’مارشل لاء کے ضابطوں کا نفاذ ضروری ہے۔ ہمیں کم سے کم نقصان کرنا ہے لیکن ہمیں تھوڑا سا خون بہانے کے لئے بھی تیار رہنا ہو گا۔‘‘
چین میں اس کارروائی پر بحث پر پابندی کے باوجود اس کتاب کی تصنیف یقینی طور پر ایک حیرت انگیز بات ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے سابق سربراہ حکومت لی کی یاداشتوں پر مبنی اس کتاب کا اجراء ہانگ کانگ کے ایک پبلیشر کی جانب سے ہو رہا ہے جبکہ اس کی ایک ایڈوانس کاپی مختلف بین الاقوامی خبر رساں اداروں کو ارسال کی گئی ہے۔
چین میں اس خونریز دن کے حوالے سے متاثرین کے خاندان ہر سال سوگ مناتے ہیں۔ اس فوجی کارروائی میں مظاہرے میں شریک طلبہ پر ٹینکوں اور خودکار ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا اور بلاتخصیص فائرنگ کی گئی تھی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک