1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2012ء، پاکستانی صحافیوں کے لیے خطرناک رہا

31 دسمبر 2012

گزشتہ چند سالوں کی طرح پاکستان 2012ء میں بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

تصویر: Fotolia/Comugnero Silvana

ساؤتھ ایشیاء میڈیا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں پاکستان میں 13 صحافی قتل ہوئے جبکہ بھارت 5 صحافیوں کی ہلاکت کے ساتھ دوسرے، بنگلہ دیش تین صحافیوں کی ہلاکت کے ساتھ تیسرے اور افغانستان اور نیپال دو دو صحافیوں کی ہلاکت کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

رپورٹ کے مطابق مالدیپ، سری لنکا اور بھوٹان میں صحافیوں کو مختلف چیلنجوں کا سامنا تو رہا لیکن وہاں اس مرتبہ خوش قسمتی سے کوئی بھی صحافی مارا نہیں گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2006ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے خطرناک علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قرارداد کی منظوری کے باوجود صحافیوں کو تشدد اور آزادیء اظہار پر قدغن کے خطرات کا سامنا ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیاء میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں پہلے نمبر پر ہےتصویر: picture alliance/dpa

جنوبی ایشیاء کے صحافیوں کی تنظیم سیفما کے جنرل سیکرٹری سرمد منظور کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے لیے پاکستان میں افغانستان سے بھی بدتر صورتحال ہے

سرمد منظور نے کہا، ’’جرنلسٹس جو کہ وار زون میں کام کر رہے ہیں، ان کے لیے بڑی مشکل ہے رپورٹنگ کرنا، کافی خطرات لاحق ہیں دہشتگردوں کی طرف سے اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے بھی۔ مثال کے طور پر یہی کہنا کہ شہید کون ہے اور مقتول کون ہے یا جاں بحق کون ہوا سو اس کے اوپر دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور اس کی پاداش میں صحافیوں کو قتل بھی کیا جاتا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس مرتبہ دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں شام پہلے جبکہ افریقی ملک صومالیہ دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان سی پی جے کی فہرست میں گزشتہ دو سال صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔

اس صورتحال میں حکومت کی طرف سے مختلف مواقع پر صحافیوں کو تحفظ کی یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ اس حوالے سے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن صحافیوں پر تشدد کا سلسلہ رک نہ سکا۔ حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کی سینیٹر کلثوم پروین اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جا سکے۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کلثوم پروین نے کہا، '’میں تو خود اور میری پارٹی اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور میری اپنی دلی خواہش بھی ہے کہ آزادانہ طور پر یہ کہنا چاہوں گی کہ خدا کے واسطے ہمیں جو کچھ ایسی چیزیں بنا لینی چاہیے جو کہ آپ لوگوں اور آپ کے آنے والے بچوں کو تحفظ دے سکیں۔ جو ابھی تک ناکافی ہے، کچھ صحافیوں کو معاوضہ بھی دیا ہے مگر یہ تو نہیں ہے کہ کسی کے ماں باپ چلے جائیں اور ہم چند لاکھ یا ہزار دے کر کہیں کہ بہت کچھ کر لیا۔ ‘‘

کلثوم پروین کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے نئے سال کے آغاز پر ایک بل متعارف کرانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ حکومت اب تک قتل ہونے والے کسی بھی صحافی کے قاتلوں کا سراع نہیں لگا سکی۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں