1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2012ء کراچی میں دو عشروں کا خونریز ترین سال

7 جنوری 2013

پاکستان کے بندرگاہی شہر اور تجارتی مرکز کراچی کے لیے سال 2012ء گزشتہ دو عشروں کا سب سے خونریز سال ثابت ہوا، جس دوران ملک کے اس سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں قریب دو ہزار افراد مارے گئے۔

تصویر: DW

کراچی میں ان ہلاکتوں کی وجہ خونریز جرائم کی کافی زیادہ شرح کے علاوہ وہاں پائی جانے والی وہ بد امنی بنی، جس کے دو سب سے بڑے اسباب لسانی اور سیاسی کشیدگی ہیں۔ ان ہلاکتوں کے سبب کراچی میں اب ان عام انتخابات کے کامیاب انعقاد کے سلسلے میں قدرے خوف بھی پایا جاتا ہے، جو اسی سال ہونا ہیں۔

کراچی میں بدامنی کے واقعات کے دوران ہر بار عوامی اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہےتصویر: dapd

ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملک پاکستان کی موجودہ آبادی 180 ملین کے قریب ہے۔ کراچی کی آبادی کا اندازہ 18 ملین کے قریب لگایا جاتا ہے اور یہ شہر پاکستان کا تجارتی مرکز بھی ہے جو اتنا بڑا ہے کہ آج ہر دسواں پاکستانی اسی شہر کا رہنے والا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں کراچی کا حصہ 20 فیصد بنتا ہے۔

پورے ملک میں حکومت کو ٹیکسوں سے جتنی آمدنی ہوتی ہے، اس کا 57 فیصد حصہ بھی اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی سے ہر عام الیکشن کے دوران اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے 33 ارکان بھی منتخب کیے جاتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں وفاقی سطح کی سیاست میں کراچی کا کردار کتنا اہم ہے۔

ان حالات میں ملک کے مختلف حصوں سے کراچی کی طرف شہریوں کی نقل مکانی کا رجحان بھی بڑا واضح ہے جو نیا نہیں ہے۔ اس وجہ سے کراچی میں، جو صوبہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے، وسائل کی کمی ہونے لگی اور شہر کی مجموعی شناخت کے علاوہ اس حوالے سے بھی ایک واضح کشمکش پیدا ہو گئی کہ اس شہر کو سیاسی طور پر کنٹرول کون کرتا ہے۔ یہ کشمکش گزشتہ پانچ برسوں میں کافی شدید ہو چکی ہے اور اس میں تیزی اس وقت آئی جب اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت اقتدار میں آئی۔

کراچی میں سکیورٹی فرائض انجام دینے والے نیم فوجی دستےتصویر: AP

خبر ایجنسی اے ایف پی نے کراچی سے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ کراچی میں جو لوگ مارے جاتے ہیں، وہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے وہ عام شہری ہوتے ہیں، جو صبح گھر سے نکلتے ہیں مگر واپس اپنے گھروں میں کبھی زندہ نہیں پہنچتے۔ یہ شہری ان جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا اور جن کی تمام سیاسی جماعتیں مذمت تو کرتی ہیں مگر جن کے مختلف لسانی اور سیاسی گروپوں کے ساتھ رابطوں سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کراچی میں خونریزی اور قتل و غارت کے مرتکب یہ عناصر سزاؤں سے بچ بھی جاتے ہیں۔

کراچی میں قائم شہریوں اور پولیس کے درمیان رابطے کی کمیٹی کے مطابق سال 2012ء میں اس شہر میں دو ہزار 124 افراد مارے گئے۔ سالانہ بنیادوں پر یہ گزشتہ قریب 20 برسوں میں ریکارڈ کی جانے والی سے سے بڑی تعداد ہے۔ انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن HRCP کے مطابق گزشتہ برس کے پہلے نو ماہ کے دوران کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں 1800 افراد مارے جا چکے تھے۔ اس سے پہلے 2011ء میں سال بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار رہی تھی۔

(mm / ij (AFP

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں