1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2013ء: کرکٹ میں مصباح اور ہاکی میں المیوں کا سال

طارق سعید، کراچی30 دسمبر 2013

پاکستانی کرکٹ ٹیم کوئی ٹیسٹ سیریز تو نہ جیت سکی البتہ ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچوں میں اس نے ان بارہ ماہ میں ریکارڈ دس سیریز جیتنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ماسوائے اسنوکر کے ہاکی، کبڈی، ٹینس اور اسکواش نے مایوس ہی کیا۔

تصویر: DW/T.Saeed

مصباح الحق نے سن دو ہزار تیرہ کی فتوحات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کو ہرانا ان کے لیے اطمینان بخش تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس سال کئی اُتار چڑھاؤ آئے لیکن ہم نے سال کا اختتام بہتر انداز میں کیا جو خوشی کی بات ہے۔‘‘

سن 2012ء کی طرح 2013ء بھی سعید اجمل کا سال تھا، جنہوں نے کیلنڈر ایئر میں ایک سو نو وکٹیں لےکر ثقلین مشتاق کا ایک سو ایک وکٹوں کا پاکستانی ریکارڈ توڑ دیا۔ کپتان مصباح نے اپنے چیمپئن باؤلر کی کارکردگی کو دل کھول کرسراہتے ہوئے کہا کہ اجمل دنیا کا بہترین باؤلر ہے، ’’کسی بھی فارمیٹ میں کسی بھی پچ پر اس کا کردار کلیدی ہوتا ہے، اجمل کا وکٹیں لینا ہمارے لیے خوش کن ہے۔‘‘

ہاکی میں سن 2013ء المیوں کا سال تھاتصویر: Tariq Saeed

رواں برس ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کو ان کے ملکوں میں شکست دی۔ اوپنر احمد شہزاد تین سو سینتالیس رنز کے ساتھ سال کے دنیا میں سب سے کامیاب بیٹسمین قرار پائے، کپتان محمد حفیظ تین سو تیئس رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ ون ڈے کرکٹ میں امسال بھی مصباح اپنے کیریئر کی پہلی سینچری نہ بنا سکے البتہ انہوں نے کیلنڈر ایئر میں سچن ٹنڈولکر کی چودہ نصف سینچریوں کا عالمی ریکارڈ ضرور ٹور دیا، وہ ایک ہزار تین سو تہتر رنز کے ساتھ دنیا میں ٹاپ اسکورر رہے۔ اپنی کارکردگی کے بارے میں پاکستانی کپتان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں کھیلنے پر انہیں سال بھر دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، ’’ہماری بیٹنگ مشکلات کا شکار رہی اور ان حالات میں ٹاپ اسکورر رہنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘‘

کرکٹ کے باہر جھانک کر دیکھا جائے تو صرف اسنوکر ہی دو ہزار تیرہ میں پاکستان کے لیے خوش خبری کا سبب بناتصویر: STR/AFP/Getty Images

مصباح کے بقول جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو ہرانے کے بعد پاکستانی ٹیم کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اب یہاں سے ٹیم کو ٹیک آف کرنا ہے، ’’مجھے دو ہزارچودہ پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا سال دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس سال کیا کھویا کیا پایا ؟ اس بارے میں خلیج کے مشہور اخبار دی نینشل کے اسپورٹس ایڈیٹر عثمان سمیع الدین کہتے ہیں، ’’گز شتہ برسوں کی نسبت ٹیم زیادہ اچھا نہیں کر سکی مگر اس کی کارکردگی کو برا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ٹیم کی رینکنگ میں کوئی فرق نہیں آیا، ہاں البتہ ون ڈے کرکٹ میں میں ٹیم نے ضرور پیش رفت کی ہے۔‘‘

پاکستانی ٹیم نے بھارت کے ہاتھوں ورلڈ کپ فائنل ہارنے کی روایت برقرار رکھیتصویر: imago/Xinhua

اسنوکر

کرکٹ کے باہر جھانک کر دیکھا جائے تو صرف اسنوکر ہی دو ہزار تیرہ میں پاکستان کے لیے خوش خبری کا سبب بنا۔ اکتوبر میں آئر لینڈ میں محمد آصف اور محمد سجاد نے ایرانی جوڑی کو ہرا کر ورلڈ ٹیم اسنوکر چیمپئن شپ کا ٹائٹل ملک کے نام کیا، بعد ازاں محمد سجاد نے لیٹویا میں ورلڈ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔

ہاکی

ہاکی میں سن 2013ء المیوں کا سال تھا۔ جنوری میں سلامتی کے خطرات کے باعث نو پاکستانی کھلاڑیوں کو بھارتی ہاکی لیگ ادھوری چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔ مارچ میں ایپوہ میں چھ ملکی سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں قومی ہاکی ٹیم کو آخری پوزیشن پر صبر کرنا پڑا۔ اپریل میں سیاسی کشیدگی کے باعث پاک بھارت ہاکی ٹیسٹ سیریز منسوخ کر دی گئی۔ نواں ایشیا کپ بھی پاکستان ہاکی پر بجلی بن کر گرا، جس کے سیمی فائنل میں دو ایک کی شکست نےگرین شرٹس کو عالمی کپ کی بیالیس سالہ تاریخ میں اسے پہلی بار میگا ایونٹ کھیلنے سے محروم کر دیا۔ اس ناکامی پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سکریٹری آصف باجوہ کو مستعفی ہونا پڑا تاہم بعد میں متنازع الیکشن کے ذریعے ٹیم کے ناکام کوچ اختر رسول فیڈریشن کےکرتا دھرتا بن گئے۔

ٹینس

ٹینس میں نیوزی لینڈ کے خلاف برما میں ہونیوالی ٹائی میں سری لنکن ریفری کے فیصلے نے ڈیوس کپ ایشیا اوشنیا گورپ ٹو میں پاکستان کی پیش قدمی کو روک دیا۔ اسٹار کھلاڑی اعصمام الحق بھی مارچ میں میامی اوپن ڈبلز کا ٹائٹل جیتنے کے علاوہ خاطر خواہ کامیابیاں نہ سمیٹ سکے اور آخر کار انہوں نے جولین راجر کی جگہ بھارتی کھلاڑی روہن بھوپنا کو دوبارہ پارٹنر بنانے کا اعلان کردیا۔

اسکواش

رواں برس اسلام آباد میں عامر اطلس خان کے ایشین چیمپئن بننے کے علاوہ اسکواش کورٹ سے کوئی اچھی خبر پاکستان کو سننے کو نہ مل سکی۔

کبڈی

کبڈی میں اس سال بھی پاکستانی ٹیم نے بھارت کے ہاتھوں ورلڈ کپ فائنل ہارنے کی روایت برقرار رکھی جبکہ سن دو ہزار تیرہ میں کوچ کی تبدیلی بھی پاکستان فٹبال کا قبلہ تبدیل نہ کر سکی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں