2014 تک فوجی انخلاء مشکل ہے: ريٹائرڈ جرمن جنرل
13 اپریل 2012سابق جرمن جنرل ايگون رامس، سن 2007 سے لے کر سن 2010 تک افغانستان ميں بين الاقوامی فوج کے پورے آپريشن کے کمانڈر تھے۔ ڈوئچے ويلے کے بيرنڈ ريگرٹ نے اس موضوع پر ريٹائرڈ جنرل رامس سے ايک انٹرويو ليا، جس کے اقتصابات يہ ہيں:
بيرنڈ ريگرٹ نے ريٹائرڈ جنرل رامس سے پوچھا کہ فوجی لحاظ سے اس طرح کے انخلاء کا انتظام آخر کس طرح سے کيا جاتا ہے۔ اس پر جنرل رامس نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو اس کا احساس نہيں ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلاء صرف فوج کی بڑی تعداد اور کثير سازوسامان کی وجہ سے بھی ايک بہت بڑا آپريشن ہو گا۔ ’ہميں ايک لاکھ 20 ہزار فوجيوں اور 70 ہزار گاڑيوں اور ايک لاکھ سے زائد کنٹينرز کو افغانستان سے نکالنا ہو گا۔ يہ ايک بھاری مسئلہ ہو گا، خاص طور پر اس ليے کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران پاکستان نے نيٹو کے سپلائی يا دوسرے لفظوں ميں انخلاء کے راستے بند کيے ہوئے ہيں۔ افغانستان سے تمام سامان کو فضائی راستے سے باہر نہيں نکالا جا سکتا۔ اس ليے يہ ايک بہت غور سے مرتب کيا جانے والا منصوبہ ہونا چاہيے۔‘
ريٹائرڈ جرمن جنرل نے کہا کہ فوجی انخلاء کے دوران سلامتی اور تحفظ کی ذمہ داری افغان فوج اور سکيورٹی کے عملے کو سنبھالنا ہو گی۔ اس دوران ساڑھے تين لاکھ کے افغان عملے کو تربيت دی جا چکی ہے۔ اس وقت بين الاقوامی فوج آئی سيف اور 49 ممالک کی اتحادی افواج جو ذمہ دارياں سنبھالے ہوئے ہيں وہ افغان فوج اور سکيورٹی کے عملے کو انجام دينا ہوں گی۔ وہی، انخلاء کے مرحلے کے دوران جو ايک نازک مرحلہ ہو گا، سلامتی اور حفاظت کا کام سنبھالے گا۔
جنرل رامس سے پوچھا گيا کہ کيا افغان فوج يہ کام سنبھال لے گی، حالانکہ افغان فوجيوں کی طرف سے خود اپنے اور نيٹو کے فوجيوں پر فائرنگ کے واقعات پيش آ رہے ہيں۔ اس پر اُنہوں نے کہا کہ وہ يہ مشورہ ديتے ہيں کہ ان حملوں کو بہت زيادہ اہميت نہ دی جائے کيونکہ پوليس اور فوج کی تعداد کے مقابلے ميں ان حملوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ اس کے علاوہ ايک امريکی فوجی کے افغان شہريوں کو اندھا دھند قتل کرنے اور قرآن جلانے جيسے مزید واقعات کو بھی امکان سے پوری طرح خارج نہيں قرار ديا جا سکتا۔ ان سے ہمارے اور افغان فوجيوں کے باہمی اعتماد کو ٹھيس پہنچتی ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ انخلاء کے دوران ہميں خود اپنی حفاظت کا انتظام کرنا ہو گا۔ ليکن باہر کی طرف، يعنی طالبان يا باغيوں کے حملوں سے حفاظت کا کام افغان فوج ہی کو سنبھالنا ہو گا۔
ريٹائرڈ جرمن نيٹو جنرل رامس نے کہا کہ وہ بھی يہی سمجھتے ہيں کہ اس بارے ميں کھلی بحث سے طالبان ميں يہ سوچ پيدا ہو گی کہ وہ غير ملکی فوج کے انخلاء کا انتظار کريں گے اور اس کے بعد اپنے حملوں کا آغاز کر ديں گے۔
جنرل رامس نے کہا کہ امريکی وزير دفاع نے سن2013 ہی ميں افغانستان سے فوجی انخلاء کی جو بات کی ہے اور افغان صدر کرزئی نے بھی جو کہا ہے کہ وہ اگلے سال ہی افغان فوج اور سکيورٹی عملے کے ملکی سلامتی کی ذمہ داری سنبھال لينے کا تصور کر سکتے ہيں، اُس نے انہيں بہت متفکر کر ديا ہے کيونکہ وہ سن 2014 تک فوجی انخلاء ہی کو ايک بہت مشکل کام سمجھتے ہيں۔ رامس نے کہا کہ نيٹو اور جرمن فوج ميں ايسے ماہرين موجود ہيں جن کا کہنا ہے کہ نيٹو کی فوج اور سامان اتنا زيادہ ہے کہ اگر ہم واقعی سن 2014 کےآخر تک فوج نکال لينا چاہتے ہيں تو ہميں يہ کام اس سال مارچ ہی ميں شروع کر دينا چاہيے تھا۔
B.Riegert/sas/D.Grathwohl/aa