2017ء سے جرمن ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار ہنگری اور امریکا
30 اگست 2021
جرمن حکومت نے گزشتہ تقریباﹰ چار سال کے دوران ہتھیاروں کی برآمد کے سرکاری اجازت ناموں سے متعلق ڈیٹا جاری کر دیا ہے۔ اس عرصے میں تقریباﹰ تیئیس بلین یورو کے ہتھیار برآمد کیے گئے۔ سب سے بڑے خریدار ملک ہنگری اور امریکا رہے۔
اشتہار
برلن میں وفاقی وزارت اقتصادیات نے جو تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، وہ چانسلر میرکل کی موجودہ حکومت کی پارلیمانی مدت کا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا اکتوبر 2017ء سے لے کر رواں ماہ کے اواخر تک جاری کردہ ان حکومتی اجازت ناموں سے متعلق ہے، جن کے تحت اسلحہ ساز جرمن اداروں کو مختلف ممالک کو اپنے تیار کردہ ہتھیار برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس تقریباﹰ چار سالہ مدت کے دوران جرمنی نے مجموعی طور پر 22.5 بلین یورو (26.5 بلین امریکی ڈالر) مالیت کے ہتھیار برآمد کیے۔ ان ہتھیاروں کے درآمد کنندہ ممالک میں سب سے آگے یورپی یونین کا رکن ملک ہنگری تھا۔ ہنگری کے بعد امریکا دوسرے نمبر پر رہا، جو خود بھی بین الاقوامی سطح پر ہتھیار برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
جرمن وزارت معیشت کے مطابق اس عرصے کے دوران جرمنی نے ہنگری کو 2.66 بلین یورو اور امریکا کو 2.36 بلین یورو مالیت کے مختلف طرح کے فوجی ہتھیار برآمد کیے۔
اسلحے کی برآمدات کے اجازت ناموں کی قانونی حیثیت
جرمنی میں وفاقی حکومت کی طرف سے ملکی اسلحہ ساز اداروں کو ان کی پیداوار کے حوالے سے جو برآمدی لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے اپنے ہتھیار حکومتی منظوری سے برآمد کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ کسی بھی غیر ملکی ادارے یا ریاست کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا اسلحہ قانونی طور پر برآمد کرنے کے لیے ایسے اجازت ناموں کا حصول لازمی ہوتا ہے۔
ایسے اجازت ناموں کے اجرا کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جرمن ساختہ اسلحہ فوراﹰ برآمد بھی کیا جا چکا ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لائسنس تو کسی ایک ماہ یا سال میں جاری کیے جائیں، لیکن اسلحے کی متعلقہ برآمدات ضروری کارروائی مکمل ہونے کے بعد کسی دوسرے مہینے یا سال میں عمل میں آئیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
غیر یورپی خریدار ممالک میں پاکستان اور بھارت بھی شامل
گزشتہ تقریباﹰ چار سال کے دوران جرمن حکومت نے دفاعی شعبے کے ملکی صنعتی اداروں کو جن ممالک کو ہتھیاروں کی برآمد کے لیے سرکاری پرمٹ جاری کیے، ان میں کئی ایسے ممالک بھی شامل تھے، جو یورپی یونین یا مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن نہیں ہیں۔
ایسے دس اہم ترین درآمد کنندہ غیر یورپی اور غیر نیٹو ممالک میں سے الجزائر نے اس عرصے کے دوران دو بلین یورو مالیت کے، مصر نے 1.88 بلین یورو مالیت کے اور قطر نے 720 ملین یورو مالیت کے جرمن ہتھیار درآمد کیے۔
یہی نہیں بلکہ بہت بڑی بڑی رقوم کے عوض جرمن ساختہ ہتھیار درآمد کرنے والے دیگر بڑے ممالک میں بھارت، انڈونیشیا اور پاکستان بھی شامل تھے۔
جرمنی میں عنقریب ختم ہونے والی موجودہ پارلیمانی مدت کے دوران برلن حکومت نے ملکی اسلحہ ساز اداروں کو ہتھیاروں کی برآمدات کے جتنے بھی لائسنس جاری کیے، ان میں سے تقریباﹰ 15 فیصد اسلحہ ترقی پذیر ممالک کو فروخت کیا گیا۔
م م / ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے، کے این اے)
یوکرائن: بین الاقوامی دفاعی میلے میں پاکستانی ہتھیاروں کی نمائش
اسلحے اور سکیورٹی کی چودہویں بین لاقوامی نمائش یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں جاری ہے۔ اس نمائش میں شرکت کے لیے اسلحے کے تاجر دنیا بھر سے جمع ہوئے ہیں۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
اس نمائش میں جنگ میں استعمال کیے جانے والے ساز و سامان، زمینی فورسز کے لیے رابطے کے آلات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اسلحہ اور سرحدی حفاظت کے استعمال کی مصنوعات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
نمائش کی افتتاحی تقریب میں یوکرائن کے وزیر دفاع کے ہمراہ پاکستان کے وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر بھی موجود تھے۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
پاکستان کے وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر نے یوکرائن کے قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے پہلے ڈپٹی سکریٹری اولید گلاڈوفسکی سے ملاقات کی۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
ملاقات میں رانا تنویر نے کہا کہ گزشتہ بیس سال کے عرصے میں پاکستان اور یوکرائن کی دفاعی صنعت کے درمیان تعلقات میں بہتری ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ دونوں ممالک میں دفاعی تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
پاکستان کی جانب سے وزیر برائے دفاعی پیداوار کے وفد میں پاکستانی دفاعی برآمدات کے فروغ کی تنظیم ’پاکستان ڈیفنس ایکسپورٹ پرموشن آرگنائزیشن اور ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کے اراکین بھی شامل تھے۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
بین الاقوامی اسلحے اور سکیورٹی کی اس نمائش کے موقع پر یوکرائن میں پاکستان کے سفیر میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے وزیرِ برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر اور ان کے وفد کے ہمراہ پاکستانی پویلین کا دورہ کیا۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا نے الخالد ٹینک، ڈریگن فور ایکس فور بکتر بند اور دیگر بلٹ پروف گاڑیوں کے ماڈل نمائش میں پیش کیے۔
تصویر: Embassy of Pakistan, Kiev
سنائپر بندوقیں، رائفلیں، پسٹل اور دیگر اسی قسم کی چھوٹے ہتھیار شرکاء کی توجہ کا مرکز رہے۔