1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟

شمشیر حیدر
5 جنوری 2018

دو برس قبل مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سن 2017 میں پہلی مرتبہ پاکستان جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے ٹاپ ٹین آبائی ممالک کی فہرست سے نکل گیا۔ اس برس محض چار فیصد پاکستانی درخواست گزاروں کو پناہ دی گئی۔

Aufnahmeeinrichtung Oberfranken (AEO) in Bamberg
تصویر: DW/H.Kiesel

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) کے مطابق سن 2017 میں یکم جنوری سے لے کر نومبر کے اختتام تک مزید دو لاکھ سے زائد افراد نے جرمن حکام کو سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ اس کے برعکس سن 2016 میں قریب ساڑھے سات لاکھ جب کہ اس سے پہلے 2015 میں پونے پانچ لاکھ تارکین وطن نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

جرمنی: سیاسی پناہ کے نئے ضوابط کے سات اہم نکات

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں، پاکستانی سر فہرست

جرمنی میں پناہ کے متلاشی پاکستانی شہری

سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد جرمنی پہنچنے والے پناہ کے متلاشی انسانوں کی اکثریت کا تعلق شام، افغانستان اور عراق سے تھا۔ تاہم پاکستان بھی ان پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل رہا تھا، جن کے شہری سب سے زیادہ تعداد میں پناہ کے لیے جرمنی پہنچے تھے۔ تاہم دو برس بعد سن 2017 میں پاکستان ان پہلے دس ممالک کی فہرست سے نکل گیا۔

بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سیاسی پناہ کے دو لاکھ سات ہزار نئے درخواست گزاروں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد چار ہزار سے کچھ زائد رہی۔ جب کہ اس سے پچھلے دو برسوں کے دوران جرمنی میں پاکستانی درخواست گزاروں کی تعداد بالترتیب قریب پندرہ ہزار اور آٹھ ہزار رہی تھی۔

سن 2017 میں بھی پناہ کے درخواست گزاروں کی اکثریت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھا تاہم قریب نو ہزار ایرانی، آٹھ ہزار ترک اور چھ ہزار کے قریب روسی شہریوں نے بھی جرمنی میں سیاسی پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔

پناہ کی درخواستوں پر فیصلے

نومبر 2017 کے اختتام تک بی اے ایم ایف نے سیاسی پناہ کی پانچ لاکھ 79 ہزار درخواستوں پر فیصلے سنائے، جن میں سے ڈھائی لاکھ سے زائد (43.6 فیصد) کو جرمنی میں مختلف حیثیتوں میں پناہ دے دی گئی جب کہ دیگر تمام درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

پاکستانی تارک وطن، جسے یورپ نے دوسری مرتبہ بھی مایوس کیا

02:30

This browser does not support the video element.

افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ بارہ ہزار تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں نمٹائی گئیں۔ افغان شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب چوالیس فیصد رہا جب کہ قریب ایک لاکھ شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں پر بھی فیصلے کیے گئے، جن میں سے قریب بانوے فیصد کو جرمنی میں پناہ دے دی گئی۔

بی اے ایم ایف کے اہلکاروں نے پاکستانی شہریوں کی جانب سے جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں پر فیصلے بھی سنائے جن میں سے محض ساڑھے آٹھ سو (یا چار فیصد) کو مختلف حیثیتوں میں جرمنی میں پناہ کا حقدار تسلیم کیا گیا۔

ان میں سے 448 پاکستانیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ ترانوے پاکستانی تارکین وطن کو ثانوی حیثیت میں جرمنی میں پناہ ملی۔ سیاسی پناہ کے درخواست گزار 280 پاکستانی شہری ایسے بھی تھے، جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر جرمنی سے ملک بدر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

گزشتہ برس مجموعی طور پر جرمنی میں انیس ہزار سے زائد (قریب چھیانوے فیصد) پاکستانی تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔

جرمنی سے نکالے گئے پاکستانی واپس اسلام آباد پہنچ گئے

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہے؟

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں