2019ء: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے فیصلہ کن سال
25 دسمبر 2018
سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد ایک ’سیاسی یلغار‘ کی زد میں ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا پرنس محمد بن سلمان پر الزام ہے کہ ترک شہر استنبول میں خاشقجی کے قتل کا حکم انہوں نے ہی دیا تھا۔
اشتہار
یہی نہیں اب تو سرکردہ سیاستدان بھی ان سے پہلو بچا کر نکل جاتے ہیں۔ یہ اور کئی دیگر عوامل وہ اسباب ہیں، جن کے باعث ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کا سیاسی مستقبل اب قطعی غیر یقینی ہو چکا ہے۔
بیونس آئرس میں جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تو شہزادہ محمد بن سلمان (جنہیں مختصراﹰ ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے) سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا مگر کئی دیگر رہنما اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے کہ کوئی انہیں عوامی سطح پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ دیکھے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ محمد بن سلمان کو مبینہ طور پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے خوفناک قتل کا محرک سمجھا جاتا ہے، جس کی ریاض حکومت کئی مرتبہ تردید کر چکی ہے۔ خاشقجی کو اس سال اکتوبر کے اوائل میں ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی اہلکاروں نے بڑی بے دردی سے قتل کر کے ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے سعودی ولی عہد کے خلاف ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے۔ اس مقدمے کی عدالتی کامیابی کا تو کوئی امکان نہیں لیکن اس نے محمد بن سلمان کی ذات کے حوالے سے ایک سیاسی رخ کا تعین بہرحال کر دیا تھا۔ اس مقدمے کا سعودی میڈیا میں کہیں بھی ذکر دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا تھا۔
ناپسندیدہ شخصیت
نومبر کے اواخر میں جب بیونس آئرس جاتے ہوئے پرنس محمد اپنے دورے کے پہلے دو مرحلوں کے دوران بحرین اور ابوظہبی میں رکے تھے، تو وہاں تو ان کا حسب توقع پرجوش استقبال کیا گیا تھا۔ اس دورے کے اختتام پر سعودی ولی عہد بیونس آئرس گئے تھے۔ لیکن اس سے قبل ان کے دورے کی ایک اور منزل تیونس بھی تھا۔
تیونس میں ان کے خلاف عوامی سطح پر مظاہرے بھی کیے گئے تھے، جن کا اہتمام تیونس کے صحافیوں کی تنظیم نے کیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین نے جو بینر اٹھا رکھے تھے، ان پر ایسے الفاظ بھی درج تھے کہ مثلاﹰ ’سعودی ولی عہد امن اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں‘۔
بیونس آئرس سے واپسی پر شہزادہ محمد بن سلمان کو مراکش بھی جانا تھا لیکن وہاں بھی ماحول ایسا تھا کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ مراکش کے عوام انہیں خوش آمدید کہنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے مراکش کے سفر کا ارادہ ہی ترک کر دیا گیا تھا۔
الجزائر میں سعودی مہمان کا استقبال تو کیا گیا تھا لیکن ان سے ملاقات کرنے والوں میں الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوطفلیکہ شامل نہیں تھے۔ بوطفلیکہ نے سعودی شہزادے سے اپنی ممکنہ ملاقات کی منسوخی کی وجہ اپنی خراب صحت بتائی تھی۔ مزید یہ کہ محمد بن سلمان کا اردن کا ایک مجوزہ دورہ بھی اردن کے عوام میں اس قدر غصے کا سبب بنا کہ یہ دورہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا گیا تھا۔
شاہی خاندان کے مفادات
محمد بن سلمان کا بیونس آئرس کا دورہ سعودی عرب میں داخلی طور پر ولی عہد کی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش بھی تھا، جو کامیاب رہی۔ سعودی عرب میں حکمران شاہی خاندان کا سب سے بڑا مفاد اس بات سے وابستہ ہے کہ ملک میں داخلی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ سعودی شاہی خاندان کی بقا اسی استحکام سے مشروط ہے۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟
تصویر: Reuters/Haberturk
12 تصاویر1 | 12
شدید داخلی عدم استحکام کی صورت میں خاندان سعود کی حکمرانی بھی خطرے میں ہو گی۔ اسی لیے سعودی حکمران اپنے خاندان کے ارکان کی انفرادی کامیابی یا ناکامی سے کہیں زیادہ اہمیت اپنی اجتماعی کامیابی کو دیتے ہیں۔ پھر شاہی خاندان کے تمام اہم فیصلے بھی اس کے ارکان اکثریتی رائے سے ہی کرتے ہیں۔
امریکا سے تعلقات
سعودی عرب میں شاہی خاندان اور اس پوری ریاست کے سیاسی مستقبل کے لیے ریاض کے امریکا کے ساتھ روابط انتہائی اہم ہیں۔ امریکا ایک طرح سے اس قدامت پسند عرب بادشاہت کی محافظ طاقت کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ اب جب کہ سی آئی اے کی طرف سے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کیا جاتا ہے، سعودی امریکی تعلقات کے ایک حصے کو گہری چوٹ لگ چکی ہے۔
دنیا ابھی یہ نہیں بھولی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چند ہفتے قبل یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکا کی تائید و حمایت کے بغیر تو سعودی شاہی خاندان چند ہفتوں سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہ سکے گا۔
ایک مؤقر سیاسی جریدے کے مطابق، ’’سعودی عرب کے ساتھ امریکی اتحاد کو آج کل امریکا میں اتنی زیادہ حد تک کڑی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کہ اس کی 1973ء میں تیل کے بحران کے بعد سے لے کر اب تک کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
نقصانات کو محدود رکھنے کی کوشش
سعودی حکومت اس وقت اپنی پوری کوششیں کر رہی ہے کہ اس کی، خاص طور پر ولی عہد کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم رکھا جائے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب یمن کی جنگ کے حوالے سے پہلی بار عمان میں ایسے امن مذاکرات کی بات بھی کی گئی ہے، جن میں سعودی عرب خود بھی واضح طور پر شریک ہو گا۔
امریکی حکومت کی سیاسی ترجیحات کو ہی مدنظر رکھتے ہوئے ریاض میں سعودی حکمرانوں نے اب یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ بے وطن فلسطینیوں کو آئندہ سعودی عرب جانے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اس فیصلے کا درپردہ تعلق فلسطینی اسرائیلی تنازعے سے بھی ہے۔ یہ بات اس امر کا اشارہ بھی ہے کہ امریکا کی تائید و حمایت میں سعودی عرب اپنی خارجہ سیاسی خود مختاری کے ایک حصے کی قربانی تو دے ہی چکا ہے۔
ان سب اقدامات کے باوجود سعودی بادشاہت چند ہی روز بعد نئے سال 2019ء کے آغاز پر اپنے لیے جو مستقبل دیکھ رہی ہے، وہ کافی حد تک غیر واضح ہے، خاص طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ذات کے حوالے سے۔
کَیرسٹن کنِپ / م م / ع ا
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔