2016ء میں کئی ماہرین کا اندازہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر نہیں بن پائیں گے۔ سیاسی امور کے ایک ماہر ایلن لشٹمین نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ٹرمپ ہی جیتیں گے۔ لیکن اب ان کے خیال میں ٹرمپ کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
کیا اگلے برس یعنی 2019ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے میں پہلے کے مقابلے میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ شاید نہیں۔ کیا 2019ء میں ان کی سیاست بدل جائے گی؟ اس کی امید بھی کم ہی ہے۔ کیا ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت والا ایوان نمائندگان ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک شروع کرنے کی کوشش شروع کرے گا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تاریخ دان اور سیاسی امور کے امریکی ماہر ایلن لشٹمین نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی کوئی تحریک شروع کیے جانے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔‘‘
ایلن لشٹمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے ان کے اندازے بالکل صحیح ثابت ہوئے ہیں۔ 2016ء کے انتخابات سے قبل ہی ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کر کے وہ ایک ’میڈیا سٹار‘ بن گئے تھے۔
تاہم اب وہ اس بات کے قائل ہیں کہ صدر ٹرمپ کو 2019ء میں اور اپنی مدت صدارت کے اس کے بعد کے باقی حصے میں بھی اپنے منصب کو بچانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کرنا پڑیں گی۔ ان کے بقول یہ ایک ایسی جنگ ہو گی، جو آخر میں ٹرمپ ہار جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی کی اکثریت والی کانگریس کا اعتماد حاصل رہا تھا، جس نے انہیں مواخذےسے بچایا ہوا تھا۔ تاہم نومبر کے اوائل میں وسط مدتی انتخابات کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے اور اب ایوان نمائندگان میں ڈیموکریکٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔ اس صورت میں ایک اضافی ووٹ بھی ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک شروع کرنے کے لیے کافی ہو گا۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
اب تک ممکنہ مواخذہ امریکی سیاست میں صرف ایک موضوع ہی تھا تاہم اب یہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ 2019ء میں تین جنوری کو ایوان نمائندگان کا ڈیموکریٹس کی سربراہی میں پہلا اجلاس ہو گا۔ اب ٹرمپ پر بات چیت کے لیے دباؤ بڑھ بھی سکتا ہے۔
ایلن لشٹمین کے مطابق میولر رپورٹ کے تناظر میں ٹرمپ شدید خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ روبرٹ میولر امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ایک سابق سربراہ ہیں اور انہیں ٹرمپ کی سیاسی مہم کے روس کے ساتھ ممکنہ رابطوں کی تحقیقات کے لیے کچھ عرصہ قبل خصوصی تفتیشی افسر نامزد کیا گیا تھا۔ لشٹمین کے مطابق میولر کے ہاتھ میں کچھ ایسی معلومات ہیں، جنہیں وہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے روس کے ساتھ مبینہ روابط کے معاملے میں اہم شواہد کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔