2019 کا بچوں کے لیے جان لیوا ترین دہائی کے ساتھ خاتمہ
30 دسمبر 2019
اقوام متحدہ نے موجودہ دہائی کو بچوں کے لیے جان لیوا ترین دہائی قرار دیا ہے جس میں بچوں کے خلاف ایک لاکھ ستر ہزار شدید نوعیت کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
اشتہار
یونیسیف کی طرف سے آج پیر 30 دسمبر کو بتایا گیا ہے کہ کئی ملین بچے تنازعات کے شکار خطوں میں تشدد کے انتہائی خوفناک نتائج کے ساتھ نئی دہائی میں داخل ہو رہے ہیں۔ بچوں کے بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق 2010ء سے اب تک بچوں کے خلاف ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد انتہائی شدید خلاف ورزیوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں قتل، زخمی کرنا، یرغمال بنانا، جنسی تشدد اور مسلح گروپوں میں ان کی بھرتی کیے جانے جیسے واقعات شامل ہیں۔
’میں اپنے حقوق سے آگاہ ہوں‘
امریکہ کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے۔ لیکن کیا مختلف ممالک کے بچے اپنے حقوق سے آگا ہیں؟ ڈی ڈبلیو نے تین براعظموں کے بچوں سے یہی سوال کیا۔
تصویر: picture-alliance/F. Gentsch
احترام کا حق
’’بچوں کو سیکھنا چاہیے، کھیلنا چاہیے اور وہ بننا چاہیے جو وہ چاہتے ہیں۔ اور ان خواہشات کا احترام سب سے اہم حق ہے۔‘‘ تالیتا فیرنانڈا، عمر نو سال، برازیل
تصویر: Plan International Brazil
تمام بچوں کے لیے مساوی حقوق
’’بچوں کے کچھ حقوق خاص ہیں، جسیا کہ تعلیم کا حق، یہ حق نہیں چھینا جا سکتا اور تفریح کا حق بھی۔ بچوں کا یہ بھی حق ہے کہ ان کی دیکھ بھال کی جائے اور انہیں مارا پیٹا نہ جائے۔ میرے خیال سے کئی ملکوں میں ان حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ تمام دنیا کے بچوں کو مساوی حقوق ملنے چاہییں۔‘‘ پیکا، عمر گیارہ سال، جرمنی
تصویر: DW/I Wrede
شناخت کا حق
’’ہر بچے کو ایک نام رکھنے کا حق ہے جبکہ والدین یا رضاعی والدین کے ذریعے دیکھ بھال کا بھی۔ مجھے سب سے اچھا حق یہ لگتا ہے کہ میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں۔ میں اپنا یہ حق اکثر استعمال بھی کرتا ہوں۔‘‘
حالب، عمر تیرہ سال، یوکرائن
تصویر: DW/L. Rzheutska
ایک بچہ، متعدد حقوق
’’مجھے عبادت گاہ جانے کا حق ہے۔ مجھے میرے دوستوں سے کھیلنے کا حق حاصل ہے۔ مجھے اسکول میں اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ مجھے زندگی گزارنے کا حق ہے، ایک گھر میں رہنے کا حق ہے اور کھانے کا بھی۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے اور اپنے اہلخانہ سے ملنے کا حق حاصل ہے۔‘‘
نیل اموحا، عمر دس سال، گھانا
تصویر: DW/I. Kaledzi
بچہ رہنے کا حق
’’میں نے سیکھا ہے کہ ہمیں اچھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اور ہمیں بڑوں کی طرح کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ بھی حق ہے کہ ہم کسی نسل، رنگ یا پھر صنفی امتیاز کے بغیر دوستوں سے کھیل سکتے ہیں۔ ایک بچے کو ایک بچہ رہنے کا حق حاصل ہے۔‘‘
برینڈا ماریا، عمر بارہ سال، برازیل
تصویر: Privat
تعلیم کا حق
’’بچوں کو تعلیم، خوراک، صاف پانی، دوسروں کی محبت اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ میرے لیے تعلیم کا حق اہم ہے کیوں میں پڑھنا اور کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
سکینہ، عمر آٹھ برس، جرمنی
تصویر: Kishwar Mustafa
کھیلنے کا حق
’’مجھے اپنے حقوق کا علم ہے۔ میرے لیے اہم حق اپنی رائے دینے، آرام کرنے اور کھیلنا ہے۔ نہ تو کوئی بڑا اور نہ ہی کوئی بچہ مسلسل کام کر سکتا ہے۔ لوگوں کو ایک بچے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے، چاہے وہ ان سے مختلف کیوں نہ ہو۔‘‘
بوہدان، عمر 14 برس، یوکرائن
تصویر: DW/L. Rzheutska
’’بچے کمزور ہوتے ہیں‘‘
میرے خیال سے بچوں کا استحصال نہیں ہونا چاہیے، انہیں ملازمت پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ بہت سے ممالک میں ایسا کیا جاتا ہے۔ مجھے بہت برا لگتا ہے کہ بچے خود کو بچا نہیں سکتے کیوں کہ بڑے ان سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔‘‘
فریڈریکا، عمر بارہ سال، جرمنی
تصویر: DW/H. Jeppesen
بچے سیاست میں
’’بچیوں کو بھی تعلیم کا حق حاصل ہے۔ میرے لیے موسمیاتی تبدیلیاں ایک اہم موضوع ہیں۔ اور مجھ اچھا لگتا ہے کہ گریٹا تھنبرگ جسی چھوٹی لڑکی بھی سیاسی طور پر اس کے خلاف برسر پیکار ہے۔‘‘
ٹیڈیو، عمر سولہ برس، جرمنی
تصویر: DW/I. Wrede
9 تصاویر1 | 9
یونیسیف کے مطابق افغانستان اور مالی سے لے کر شام اور یمن تک میں جاری تنازعات کے سبب کئی ملین بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل اور زندگی جیسے معاملات غیر یقینی کا شکار ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینیئریٹا فور کے مطابق، ''بچوں کے خلاف حملوں کا نا رکنے والا سلسلے جاری ہے کیونکہ متحارب فریق بچوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق جنگ کے ایک انتہائی بنیادی اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے خلاف تشدد کے بہت سے واقعات کہیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ یونیسیف کے مطابق اس وقت جس تعداد میں ممالک تنازعات کا شکار ہیں وہ گزشتہ تین دہائیوں کی بلند ترین تعداد ہے۔ یونیسیف کی طرف سے مزید کہا گیا ہے، ''مسلح تنازعات ہر ایک کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں مگر یہ بچوں کے لیے خاص طور پر انتہائی خوفناک ہوتے ہیں۔‘‘
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘