2021ء کے دوران پینتالیس صحافیوں کو ہلاک کیا گیا، آئی ایف جے
31 دسمبر 2021
سال 2021 میں صحافی اور ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے پینتالیس افراد کو ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران ہلاک کیا گیا۔ ان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں افغانستان میں ہوئیں۔ اس فہرست میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
اشتہار
دنیا میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم 'انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ‘ کی جانب سے یہ تفصیلات جمعے کو پیش کی گئیں۔ آئی ایف جے کے مطابق گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہلاکتوں کی یہ کم ترین شرح ہے۔ 2020ء میں یہ تعداد پینسٹھ تھی۔
رجحان میں تبدیلی
تاہم آئی ایف جی نے کہا ہے کہ 2021ء میں اس رجحان کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہلاک کیے جانے والوں میں ان میڈیا کارکنوں کو تعداد زیادہ ہے، جنہوں نے اپنی اپنی برادریوں، شہروں اور ملکوں میں بدعنوانی، جرائم اور طاقت کے ناجائز استعال کو بے نقاب کیا ہے۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
مقروض رہیں گے
آئی ایف جے کے جنرل سیکرٹری انتھونی بیلنگر کے مطابق، ''پرتشدد کارروائیوں کے دوران جن پینتالیس ساتھیوں کو ہم نے کھویا ہے وہ ہمیں صحافیوں کی ان ہولناک قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں، جو وہ دنیا بھر میں عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے دے رہے ہیں۔ ہم ہمیشہ ان کے اور ان ہزاروں دیگر صحافیوں کے مقروض رہیں گے، جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔‘‘
بیلنگر نے مزید کہا کہ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی جانیں دی ہیں، اسے پورا کرنے کی خاطر انصاف کے حصول کی انتھک جدوجہد کرنی چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ قتل کیے جانے والے ان پینتالیس صحافیوں کا تعلق بیس مختلف ممالک سے تھا۔ ان میں سے تینتیس کو باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ ان میں سے نو افغانستان میں ہلاک ہوئے، آٹھ میکسیکو، چار بھارت اور تین پاکستان میں۔
نمائندہ تنظیم
آئی ایف جے دنیا بھر تقریبا چھ لاکھ میڈیا کارکنوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے مطابق گزشتہ تیس برسوں کے دوران اب تک 2721 صحافیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔آئی ایف جے نے سن 1991 سے ذمہ داریاں ادا کرنے کے دوران مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے اعداد و شمار اکھٹے کرنا شروع کیے تھے۔