1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتعالمی

2024ء عالمی اقتصادی منظر نامہ: چین، ٹرمپ اور غیر متوقع عوامل

13 جنوری 2024

گزشتہ چند برسوں میں ہم نےعالمی اقتصادیات کے حوالے سے اگر کچھ سیکھا ہے تو وہ ہے کسی غیر متوقع صورتحال کی توقع رکھنا، جو لوگ سن 2024 میں استحکام کی امید کر رہے ہیں، ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

USA San Francisco | Chinas Präsident Xi Jinping
تصویر: Yomiuri Shimbun/AP/picture alliance

2020ء کی دہائی اقتصادی لحاظ سے دنیا کے لیے اب تک خاصی مشکل رہی ہے۔ اکتیس دسمبر 2019 کو یعنی نئے سال اور نئی دہائی کے آغاز سے ایک روز قبل عالمی ادارہ صحت نے پہلی بار چین میں نمونیہ کے اچانک ظاہر ہونے والے پراسرار کیسز کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور پھر مارچ 2020ء تک کووڈ انیس کی عالمی وبا دنیا بھر میں پھیل چکی تھی اور اس سبب  اگلے دو برسوں تک عالمی اقتصادی ترقی شدید متاثر رہی۔   

اس بحران سے ابھی دنیا باہر نکلی ہی تھی کہ فروری 2022ء میں روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس کا نتیجہ تیل کی قیمتیں بڑھنے اور مہنگائی میں شدید اضافے کی صورت نکلا۔ اس عالمی وبا کے سبب عالمی سطح پر اشیا کی فراہمی کا سلسلہ مزید خرابی کا شکار ہوا۔ یورپ نے توانائی کے حصول کے لیے اپنے سب سے بڑے شراکت دار یعنی روس کے ساتھ ڈرامائی طور پر تجارت کا سلسلہ معطل کر دیا۔

بھارت: طویل لاک ڈاؤن تنہائی اور غربت وبالِ جان

02:49

This browser does not support the video element.

اس کے ساتھ ہی کچھ دیگر اہم واقعات بھی رونما ہوتے رہے مثلاً کرپٹو کرنسی کا کریش کر جانا، گھر سے کام کرنے کا رجحان اور مصنوعی ذہانت یا اے آئی کا روزمرہ زندگی میں بڑھتا ہوا عمل دخل، سادہ الفاظ میں یہ ایک بہت ہی مشکل صورتحال تھی۔

اب جبکہ ہم اس دہائی کے پانچویں برس میں داخل ہو رہے ہیں تو کیا سن 2024 میں عالمی اقتصادی صورتحال میں بہتری اور استحکام کی امید کی جا سکتی ہے؟ اس پر کوئی شرط ہرگز مت لگائیے گا۔

وسیع منظر نامہ

گزشتہ چند برسوں میں رونما ہونے والے واقعات نے معاشی صورتحال پرڈرامائی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اگرچہ دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں میں افراط زر کی شرح میں کمی آئی ہے تاہم شرح سود اب بھی بلند ہے۔ اس میں کمی کے کوئی آثار نہیں نظر آ رہےکیونکہ مرکزی بینک مہنگائی پر قابو کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور وہ جلد بازی میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھانا چاہتے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مالیاتی پالیسی میں سختی کے اثرات اگر 2023ء میں محسوس نہیں کیے گئے تویہ سن 2024 میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ 

آکسفورڈ اکنامکس سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشيات ایڈم سلیٹر کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جن دھچکوں سے ہم گزرے ہیں ان کے پیش نظر عالمی اقتصادیات اتنی کمزور نہیں ہوئی جتنی کی توقع تھی۔ لیکن ہمارے خیال سے اس کے کچھ اثرات کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتے ہیں۔‘‘

عالمی سطح پر اقتصادی دھچکوں سے سب سے زیادہ متاثر غریب ممالک میں رہنے والے عوام متاثر ہوتے ہیںتصویر: Million Haileselassie Brhane/DW

سلیٹر کو توقع ہے کہ آئندہ برس عالمی ترقی کافی حد تک 'کمزور‘ ہوگی اور تکنیکی کساد بازاری بھی خارج از امکان نہیں۔

یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ سن 2024 میں عالمی مجموعی پیداوار کی شرح نمو سن 2023 کی شرح نمو سے مختلف نہیں ہو گی، مگر بہت سے لوگوں کے مطابق تو اس میں کمی ہو سکتی ہے۔ معاشی تعاون کی تنظیم (او ای سی ڈی) آئندہ برس عالمی نمو کا اندازہ 2.7 فیصد کا لگا رہی ہے جو 2023 میں  2.9 فیصد کے مقابلے میں کم ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو توقع ہے کہ شرح نمو 2.9 فیصد رہے گی جبکہ یورپی مرکزی بینک کا اندازہ تین فیصد کا ہے۔

ان اندازوں میں بہت سی علاقائی تفاوت موجود ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف چین یا یورپ کے مقابلے میں امریکہ میں کہیں زیادہ مضبوط ترقی کی توقع کر رہا ہے۔

چین پر نظریں

ماہرین کے مطابق دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کے معاشی رجحان پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں۔ایڈم سلیٹر کا کہنا ہے، ''اس معیشت کی رفتار عالمی ترقی کے لیے اہم ہے اور یہ علاقائی طور پر ایشیا کے لیے اہم ہے۔‘‘

بھارت کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ سے تعلق رکھنے والے ماہر سشانت سنگھ کہتے ہیں کہ سن 2024 کا اہم سوال یہ ہوگا کہ چین کی معیشت اس سال ڈوبے گی یا ابھرے گی۔  

اس برس کے اوائل میں عالمی مالیاتی بینک نے متنبہ کیا تھا کہ چین جیسی اہم ترین معیشت اگر بدحالی کی جانب بڑھی تو اس کے اثرات پورے مشرقی ایشیا پر مرتب ہوں گے، جو پوری دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تاہم واشنگٹن میں قائم سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والے ولیم رائینش چین کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے پُرامید ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ریاستوں کے کنٹرول والی معیشتوں کی ایک دلچسپ خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں غلطیوں کے نتائج میں تاخیر لانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘‘

چینی نوجوانوں میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہےتصویر: Schifres Lucas/dpa/picture alliance

ولیم رائینش کے مطابق ریاست بینکوں کو ہدایت جاری کرتی ہے کہ کس سیکٹر کو قرضے جاری کیے جائیں۔ یعنی وہ کسی بھی کمپنی یا سیکٹر کے دیوالیہ ہونے یا نہ ہونے کا مکمل فیصلہ کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چین کی معاشی بدحالی کی پیش گوئیاں درست نہیں ہیں، یہاں تک کہ وہاں کے بارے میں سنگین معاشی خدشات کے باوجود بھی۔

ولیم رائینش کے بقول، ''چین کے پاس کچھ بہت مضبوط برآمدی شعبے ہیں، جیسے ای وی (الیکٹرک گاڑیوں کی) بیٹریاں، کنزیومر الیکٹرانکس کی وسیع رینج اور معدنیات وغیرہ۔ میرا مطلب ہے، ان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جہاں وہ عالمی سطح پر انتہائی مسابقت رکھتے ہیں اور یہ صورتحال تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔‘‘

تاہم ایک معاملہ جو خدشات کا سبب ہے وہ ہے تائیوان، اگرچہ شی جن پنگ اور جو بائیڈن کے درمیان حالیہ ملاقات نے امریکہ اور چین کے تعلقات میں ایک طرح سے سرد مہری کا اشارہ دیا ہے، لیکن تائیوان پر چینی حملے جیسے خدشات، دیگر کئی معاملات کی طرح عالمی معیشت پر منڈلا رہے ہیں۔

یوکرین، خوراک اور توانائی

 تائیوان اور چین کا تنازعہ شاید مستقبل قریب میں زیادہ خطرناک صورت اختیار نہ کرے تاہم یوکرین اور روس کے مابین جاری جنگ کے سن 2024 میں عالمی اقتصادیات پر قابل ذکر اثرات مرتب ہوں گے۔

سشانت سنگھ کے مطابق یہ ابھی بھی سب سے اہم معاملہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''روس اور یوکرین جنگ کے باعث جو تین چیزیں براہ راست متاثر ہوئیں وہ تھیں، خوراک، کھاد اور ایندھن اور یہی تین چیزیں دنیا کے سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں۔‘‘

اس جنگ نے عالمی توانائی اور اشیا خورونوش کی مارکیٹوں کو گزشتہ دو برسوں سے شدید متاثر کر رکھا ہے اور غریب ترین ممالک سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔ سشانت سنگھ کا مزید کہنا تھا، ''اگر کسی طرح سے صورتحال مستحکم رہتی ہے یا اسے حل کر لیا جاتا ہے، تو گلوبل ساؤتھ اپنی آبادی کی بڑی تعداد کے لحاظ سے فائدہ اٹھائے گا۔‘‘

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے فوری بعد روس کے یوکرین پر حملے نے پہلے سے ہی بدحال دنیا کی معیشت کی حالت اور بھی بگاڑ دیتصویر: Ozge Elif Kizil/Anadolu/picture alliance

ان کا کہنا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ عام مسئلہ یہ ہے کہ معاشی پیش گوئیوں اور تجزیوں میں امیر ممالک کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور ترقی پذیر ممالک اور وہاں کی معیشت کے سنگین مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی جو وبائی امراض کے بعد سے کئی حوالوں سے مزید بدتر ہو گئے ہیں۔

سشانت سنگھ ہندوستان کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں اعلی شرح نمو ملک کی بڑی اکثریت کی حقیقی زندگی پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ بھارتی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں 80 کروڑ سے زائد افراد کو مفت اناج فراہم کرے گی۔

ان کا کہنا تھا، ''اگر مستقبل اتنا ہی روشن ہوتا تو ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہوتے کہ مودی کی جانب سے ملک کے دو تہائی حصے کو اگلے پانچ سال کے لیے مفت راشن دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘

انتخابات کا بخار

بھارت ان کئی ایک ممالک میں شامل ہے، جہاں رواں برس فیصلہ کن انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ درحقیقت سن 2024 کو انتخابات کے حوالے سے تاریخ کا اہم ترین سال قرار دیا جا رہا ہے، جب دنیا بھر میں چار ارب سے زائد انسان انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس برس بھارت سمیت  دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہونا ہیں جن میں برازیل، پاکستان، انڈونیشیا، ترکی، میکسیکو اور بنگلہ دیش بھی شامل ہے۔

ان میں کئی ایک عالمی معیشت کے لیے اہم ہیں مگر امریکہ میں 2024 میں منعقد ہونے والے صدارتی انتٍخابات اہمیت کے اعتبار سے شاید سب سے زیادہ اہم ہیں۔ جہاں اب تک کے انتخابی جائزوں میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو موجودہ صدر جو بائیڈن پر سبقت حاصل ہے اور وہ آئندہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں صدر منتخب ہو سکتے ہیں جو ان کی تاریخی دوسری مدت صدارت ہو گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنھیں اس سال انتخابات کا سامنا ہےتصویر: India's PM Press Office/ UPI Photo/IMAGO

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور میں چین کے ساتھ کس طرح تجارتی جنگ شروع کی تھی، اس حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی واپسی کے عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

ولیم رائینش کا کہنا ہے، ''یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ وہ پہلے ہی مختلف محصولات اور مختلف چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘‘ رائینش کے بقول آپ یہ بات کافی اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ باقی دنیا حد سے زیادہ رد عمل ظاہر کرے گی۔

اگر ٹرمپ منتخب ہوتے بھی ہیں تو وہ عہدہ صدارت 2025 سے پہلے نہیں سنبھالیں گے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات ہیں جن پر اقتصادی ماہرین اور تجارتی رہنماؤں کی نظریں ہیں۔ بہت سے شعبوں میں ماحول دوست توانائی کی طرف منتقلی اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تیز رفتار ترقی، یقینی طور پر تجارتی بات چیت میں زیادہ مرکزی اہمیت اختیار کر جائیں گے۔

لیکن، جیسا کہ وبائی امراض اور یوکرین میں جنگ جیسے واقعات نے ہمیں دکھایا کہ  اکثر ان چیزوں کا زیادہ اثر ظاہر ہوتا ہے جو غیر متوقع ہوتی ہیں اور جو کسی کی نظر میں ہی نہیں ہوتیں۔

ولیم رائینش کے مطابق، '' مجھے ایسے واقعات کے وقوع پزیر ہونے کی زیادہ تشویش ہے، جن کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی مگر ان کی وجہ سے تباہ کن رد عمل سامنے آ سکتے ہیں۔‘

آرتھر سلیوان (ع ف / ش ر)

کیا غزہ جنگ تیل کے بحران کا سبب بن سکتی ہے؟

02:23

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں