1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے، پاکستان

3 اکتوبر 2023

پاکستان کے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ انہیں زبردستی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق حکومت تمام افغان شہریوں کو واپس بھیجنا چاہتی ہے۔

پشاور میں ہونے والا ایک دھماکا
24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے، پاکستانتصویر: MAAZ ALI/AFP/Getty Images

پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 1.73 ملین افغان شہریوں کے پاس کوئی قانونی رہائشی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 1.3 ملین ہے جبکہ آٹھ لاکھ اسی ہزار مہاجرین کو قانونی حیثیت فراہم نہیں ہے۔

افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیا جائے گاتصویر: Badloon

پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے مہینوں میں سب مہاجرین کو افغانستان واپس جانا پڑے گا۔ اے پی پی نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے، ''حکومت چاہتی ہے کہ تمام افغان پاکستان سے واپس چلے جائیں۔ پہلے مرحلے میں غیر قانونی مقیم افراد،  دوسرے مرحلے میں افغان شہریت کے حامل افراد اور تیسرے مرحلے میں رہائشی کارڈ کے ثبوت فراہم کرنے والے افراد کو نکال باہر کیا جائے گا۔‘‘

خودکش حملوں میں افغان شہریوں کا کردار

اس کے ساتھ ہی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی  الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس ملک میں ہونے والے 24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 کے ذمہ دار افغان شہری تھے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے پہلے اسلام آباد میں امن و امان کے حوالے سے سول اور فوجی رہنماؤں کی ایک ملاقات ہوئی، جس میں ملکی وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے۔

پاکستان میں گزشتہ ہفتے مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنانے والے دو خودکش بم دھماکوں میں کم از کم 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم پاکستانی وزیر داخلہ کے تبصروں پر کابل حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے، پاکستانتصویر: Video obtained via REUTERS

افغان طالبان ماضی میں ایسے الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہو رہی اور یہ کہ پاکستان کی سلامتی اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔

پاکستان میں سن  2022 کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تب اسلام آباد حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔

ا ا / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں