طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان حکومت کی تیار کردہ فہرست کا مذاق اڑاتے ہوئے بدھ کے روز کہا ہے، ’’جنہوں نے بھی فہرست تیار کی ہے، انہیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس کانفرنس کا انعقاد خلیجی ریاست قطرکر رہی ہے اور یہ کابل کے ہوٹل میں ہونے والی کوئی شادی کی پارٹی نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید تھا کہ یہ کسی ضیافت کا دعوت نامہ نہیں ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی طویل فہرست مرتب کرتے ہوئے کابل حکومت امن مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے دانستہ کوشش کر رہی ہے، ’’قطر حکومت مذاکرات کے لیے اتنے زیادہ لوگوں کو منظور نہیں کرے گی۔‘‘
گزشتہ روز افغان حکومت نے ڈھائی سو ایسے شہریوں کے ناموں کا اعلان کیا تھا، جو اسی ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں حصہ لیں گے۔ اس بات چیت کو ’افغان دھڑوں کی اندرونی مکالمت‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس میں شرکت کے لیے کابل حکومت کے اعلان کردہ ڈھائی سو شہریوں کے ناموں میں تقریباﹰ پچاس خواتین بھی شامل ہیں۔ افغان طالبان نے کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ براہ راست مکالمت سے انکار کر دیا تھا۔ اسی لیے یہ افغان باشندے دوحہ میں عام شہریوں کے طور پر طالبان سے بات چیت کریں گے۔
دریں اثناء سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دوحہ حکومت پہلے ہی دو سو اراکین کے قطر آنے سے متعلق اتفاق کر چکی ہے۔ افغانستان امن کونسل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات قطر کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے کروائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس ادارے کا نام تو نہیں بتایا لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ یہ ادارہ دوحہ حکومت کی سرپرستی میں تحقیقی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ا ا / ع ح ( ڈی پی اے، اے ایف پی)
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP