’30 ہزار غیر ملکی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد غائب‘
شمشیر حیدر Benjamin Knight
3 نومبر 2017
جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامہ ’بلڈ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک سے اب تک تیس ہزار سے زائد پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزار ’غائب‘ ہو چکے ہیں تاہم برلن حکومت کے مطابق یہ اعداد و شمار ’مکمل سچ‘ نہیں ہیں۔
اشتہار
کثیر الاشاعتی اخبار ’بلڈ‘ نے اپنی رپورٹ میں جرمن حکومت کے ’غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر‘ کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر لکھا تھا کہ سن 2016 کے آخر تک 54 ہزار غیر ملکی ایسے تھے، جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے چلے جانا تھا۔ تاہم جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق ان میں سے قریب تئیس ہزار افراد پناہ کے مکی قوانین کے تحت حکومت سے ماہانہ مالی معاونت حاصل کر رہے تھے، جب کہ دیگر قریب تیس ہزار غیر ملکیوں کے بارے میں جرمن حکام کو کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔
اس رپورٹ کے جواب میں جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ’پوری سچائی‘ کی عکاسی نہیں کرتے۔ برلن حکومت نے تاہم یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ حکام کو ملک میں موجود ہر اس تارک وطن کے محل وقوع کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا، جس کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔
تین یورپی ممالک کی بارڈر کنٹرول مشقیں
01:33
’بلڈ‘ نے اپنی رپورٹ میں جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس بات کی نفی نہیں کی جا سکتی کہ ان تیس ہزار غیر ملکیوں میں سے کئی جرمن حکام کو اپنے اقدامات سے متعلق کسی بھی سطح پر علم میں لائے بغیر ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو نے جرمن وزارت داخلہ سے اس بارے میں مزید دریافت کیا تو ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ کئی غلط مفروضوں پر مبنی ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ڈی ڈبلیو کو ای میل کے ذریعے دیے گئے جواب میں کہا گیا، ’’اس مضمون میں یہ بنیادی بات پیش نظر نہیں رکھی گئی کہ غیر ملکیوں کے رجسٹر میں شمار کیے گئے ایسے غیر ملکیوں میں سے، جنہیں جرمنی میں مزید قیام کی اجازت نہیں ہے، انچاس فیصد غیر ملکی ایسے ہیں جن کو اپنی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کی بنیاد پر لازمی طور پر جرمنی چھوڑنا ہے، جب کہ باقی اکاون فیصد غیر ملکی تارکین وطن نہیں، بلکہ وہ افراد ہیں جن کی جرمنی میں ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔‘‘
وزارت داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اخباری رپورٹ میں ماہانہ مالی معاونت حاصل کرنے والے افراد کی بنیاد پر موازنہ جاری کیا گیا ہے حالاں کہ دونوں اعداد و شمار میں کوئی شماریاتی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید بتایا گیا، ’’نہ ہی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو اور نہ ایسے افراد جنہیں لازمی طور پر جرمنی چھوڑنا ہے، کوئی ماہانہ مالی معاونت ملتی ہے۔‘‘
مہاجرین کی مدد کرنے والی سماجی تنظیم ’پرو ازُول‘ سے تعلق رکھنے والے بیرنڈ میسووچ نے ’بلڈ‘ کی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر لوگ جرمنی میں موجود نہیں بھی ہیں، تو بھی یہ فرض کر لینا غلط ہے کہ یہ لوگ ’غائب‘ ہو چکے ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔