351 دن شامی دہشت گرد گروپ کی قید میں گزارنے والی جرمن صحافی
10 اپریل 2019
جنینا فنڈائسن ایک صحافی ہیں۔ وہ اپنی ایک دوست سے ملنے ایک ایسے موقع پر شام گئیں، جب وہ سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ شام میں انہیں اغوا کر لیا گیا اور اسی دوران وہ ماں بھی بنیں۔ انہوں نے351 دن قید میں گزارے۔
اشتہار
کہتے ہیں بُرا وقت کبھی کہہ کر نہیں آتا۔ ایسا ہی ہوا جنینا فنڈائسن کے ساتھ، جب انہوں نے خانہ جنگی کے شکار ملک شام جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وجہ کیا تھی؟ صرف اُن دہشت گردوں اور جہادیوں کے بارے میں خصوصی مواد حاصل کرنا جو خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں سے لورا نے اِن کا رابطہ کرایا تھا، جو جنینا کی اسکول کی دوست تھی اور ساتھ ہی وہ دہشت گردوں کے ساتھ بھی تھی۔ لورا بھی دہشت گردوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دس سال قبل پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان گئی تھی اور اس کے بعد وہ کبھی واپس جرمنی نہیں پہنچی۔
جنینا فنڈائسن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ میری اولین فلم ہوتی، جس میں لورا سے میری دوستی کی کہانی بیان کی جاتی۔‘‘ یہ بات 2015ء کے موسم خزاں کی ہے۔ فنڈائسن لورا کی والدہ کے ساتھ ترکی کے شہر انطاقیہ گئیں۔ وہاں پر کچھ ایسےاسمگلرز موجود تھے، جن کا کام انہیں لورا کے پاس لے کر جانا تھا۔ یہ شہر ترکی اور شامی سرحد پر واقع ہے اور یہاں پر حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔
اس موقع پر لورا کی والدہ نے واپس جرمنی آنے کا فیصلہ کیا مگر حاملہ صحافی نے تمام تر انتباہ کے باوجود اپنا سفر جاری رکھنے کی ٹھانی، ’’مجھے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی اور یہ میرے لیے اہم تھی۔ اگر میں آج کے حوالے سے سوچوں تو میری طرف سے یہ بہت بڑی نادانی تھی۔ لیکن اس وقت میرے اندازے غلط تھے۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ’’مجھے میری دوست کی جانب سے تحفظ کی ضمانت ایک ای میل کے ذریعے بھیجی گئی تھی اور اس وقت اس کے الفاظ میرے لیے کافی تھے۔‘‘ اسمگلر جنینا فنڈائسن کو لے کر شمالی شام پہنچے، جہاں ان کی ملاقات لورا سے کرائی گئی۔ انہوں نے یہاں آٹھ دن گزارے۔
دہشت گردوں کا ساتھ دینے والی لورا اور جنینا بون کے اسکول میں ساتھ پڑھتی رہی ہیں، ’’وہ ہمیشہ سے میری دوست تھی، ہم ایک دوسرے کو بہت عرصےسے جانتے تھے۔ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد تھا اور یہی میرے سفر کی وجہ بھی بنی۔‘‘
جنینا اور لوار نے بہت سا وقت ایک دوسرے سے ساتھ گزار اور اس دوران جنینا نے النصرہ فرنٹ کے کئی کمانڈروں سے انٹرویو بھی کیے۔ یہی وہ دہشت گرد گروہ ہے، جس نے بعد ازاں جنینا کو اغوا بھی کیا تھا۔ اس دوران ان لوگوں نے قریبی علاقوں کے دورے کیے، ’’ہم ادلب گئے اور میں نے گاڑی کے شیشے نیچے کر کے ویڈیو بھی بنائی۔‘‘
جب جنینا کے پاس مناسب مواد اکھٹا ہو گیا تو اس نے اپنی دوست سے رخصت لی اور ٹیکسی میں بیٹھ کر ترکی کی سرحد کی جانب روانہ ہوئی۔ لورا کے گروہ کا ایک جنگجو اس موقع پر جنینا کے ہمراہ تھا۔ سرحد سے کچھ ہی دور گاڑی رک گئی، ’’مجھے کچھ عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ کیونکہ ٹیکسی کی رفتار بہت کم ہوتی تو کبھی بہت بڑھ جاتی۔ پھر متعدد نقاب پوش مسلح مردوں نے ٹیکسی کو روک لیا۔ انہوں نے ڈرائیور اور ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو گاڑی سے باہر نکالا اور خود گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ایک جنگجو میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ میں خوفزدہ تھی لیکن پھر بھی پرسکون انداز میں بیٹھی رہی کیونکہ مجھے علم تھا کہ میں کچھ کر نہیں سکتی۔‘‘
ایسی تصاویر، جنہوں نے دنیا کو دہلا دیا
شامی مہاجر ایلان کُردی کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کی تصویر لاکھوں مہاجرین کے مصائب کی علامت بن گئی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ایسی ہی دیگر آٹھ تصویریں جو عالمی سیاست میں علامتی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہیں۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
’نیپام گرل‘
جنوبی ویت نام کے ایک گاؤں میں ’نیپام بم‘ کے دھماکے کے بعد خوفزدہ اور سہمے ہوئے بچے۔ اس بم سے متاثر ہونے والی نوسالہ لڑکی ’پھن کِم پُھک‘ نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے کیونکہ ان میں آگ لگ چکی تھی۔ یوں وہ زندہ بچنے میں کامیاب بھی ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ویت نام جنگ سے متعلق عوامی رائے کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء میں فوٹو گرافر نِک اُٹ کو اس تصویر پر پولٹزر ایوارڈ بھی ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
گردوغبار سے اٹی ہوئی خاتون
11 ستمبر2001ء کو جب نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردانہ حملے کیے گئے تو تباہی کا عالم دیکھنے میں آیا۔ یہ تصویر بھی اسی وقت لی گئی تھی۔ اس تصویر میں مارسی بارڈر نامی ایک ایسی خاتون گرد و غبار میں ڈھکی نظر آ رہی ہے، جو اس تباہی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی۔ بارڈر چھبیس اگست 2015ء کو معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئی۔ وہ اسی سانحے کی اثرات کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP
ٹینک کے سامنے
پانچ جون 1989ء کو یہ چینی نوجوان اچانک ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے دارالحکومت بیجنگ میں ٹینکوں کے کاروان کو رکنا پڑ گیا تھا۔ یہ تصویر اُس دن سے صرف ایک روز پہلے لی گئی تھی، جب چینی فوج نے بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہروں کو سنگدلی سے کچل دیا تھا۔ اس شخص کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون تھا۔
تصویر: Reuters/A. Tsang
بینو اوہنے زورگ کی ہلاکت
دو جون 1967ء کو ایران کے شاہ کی جرمنی آمد پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اسی موقع پر جرمن طالب علم بینو اوہنے زورگ گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اسی طالب علم کی ہلاکت کے باعث ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں بائیں بازو کی تحریک میں انتہا پسندانہ رجحانات شامل ہو گئے تھے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تھا تو اوہنے زورگ کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
تصویر: AP
کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو نومبر 1963ء میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت ابراہم زپروڈر اس صدارتی قافلے کی کوریج پر متعین تھے اور انہوں نے کینیڈی پر اس حملے کے لمحے کو بھی فلمبند کر لیا تھا۔ فریم 313 میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک گولی کینیڈی کے سر میں لگی۔ تاہم ابراہم زپروڈر اس فریم کو شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میونخ میں قتل عام
میونخ میں 1972ء میں منعقد ہوئے اولمپک مقابلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کے گیارہ ایتھلیٹس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ بعدازاں فلسطینی دہشت گرد گروہ ’بلیک ستمبر‘ نے انہیں ہلاک بھی کر دیا تھا۔ اس تاریخی تصویر میں ایک اغوا کار کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: dapd
افغان لڑکی
اسٹیو مککری کا بنایا ہوا یہ پورٹریٹ 1985ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لڑکی پاکستان میں بطور مہاجر زندگی بسر کر رہی تھی لیکن یہ تصویر افغانستان میں سوویت قبضے اور دنیا بھر میں افغان مہاجرین کی زبوں حالی کی ایک علامت بن گئی تھی۔ بارہ سالہ اس بچی کی شناخت 2002ء تک پوشیدہ ہی رہی تھی۔ اس سے قبل شربت گلہ نامی اس لڑکی نے اپنا یہ پورٹریٹ بھی نہیں دیکھا تھا۔
تصویر: STAN HONDA/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
اغوا کاروں نے جنینا کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور گاڑی چل پڑی۔ وہ 351 دنوں تک جنگجوں کے قبضے میں رہیں اور ہر چند ماہ میں ان کا ٹھکانہ تبدیل کیا گیا۔ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ دیے جانے والے احکامات پر عمل کیا، نہ شور مچایا اور نہ ہی فرار ہونے کی کوشش کی۔ انہیں کپڑے اور کھانا دیا جاتا تھا اور کمرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ کبھی کبھار جب ٹیلی وژن دیکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے ڈی ڈبلیو ہی کی نشریات دیکھیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ زچگی کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا تھا ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ انہوں نے کئی مرتبہ اس امید کے ساتھ درد کا بہانہ کیا کہ شاید انہیں ہسپتال لے جایا جائے، ’’اس کے بعد میرے پاس ایک ماہر زچہ بچہ ڈاکٹر کو لایا گیا۔ انہوں نے اس کے شوہر کو بھی اغوا کیا تھا تاکہ وہ کچھ بھی نہ کہے اور زچگی پر توجہ دے۔ انہوں نے اسے کہا تھا کہ اگر مجھے یا بچے کو کچھ ہوا تو وہ اس کے شوہر کو قتل کر دیں گے۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس دوران انہوں نے اپنے بچپن، اپنے لڑکپن اور اپنی جوانی میں گزارے گئے اچھے لمحات کو یاد کیا اور اس دباؤ کو برداشت کرنے کی کوشش کی۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
گیارہ ماہ بعد اچانک کچھ نقاب پوش افراد گھر میں داخل ہوئے، ’’ان افراد نے میرا نام پکارا اور مجھے اپنے ساتھ باہر لے گئے۔‘‘ اس موقع پر انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ’’مجھے لگا کہ یہ کوئی دوسرا دہشت گرد گروہ ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ مجھے آزاد کرانے آئے ہیں۔‘‘
جنینا کے بقول، ’’ ان افراد کا تعلق بھی النصرہ فرنٹ کے ایک اور گروپ سے تھا۔ یہ لوگ مجھے دیے گئے تحفظ کا وعدہ پورا کرنا چاہتے تھے۔ ان افراد نے میری آنکھوں پر سے پٹی ہٹائی اور مجھے میرے بیٹے کے ساتھ ایک گاڑی پر بٹھایا اور ترکی کی سرحد پر لائے۔ جہاں پر جرمن حکام میرے انتظار میں کھڑے تھے۔‘‘
’’اگر میرے بچے نہیں ہوتے، تو میں نے خود کشی کرلی ہوتی۔‘‘