روسی خام تیل کی پہلی کھیپ کراچی بندرگاہ پر
12 جون 2023گزشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے ماسکو پر سخت اقتصادی پابندیوں کے تحت یورپی یونین اور امریکہ کو روسی تیل اور گیس کی برآمدات میں نمایاں کمی آئی۔ تاہم پاکستان جو ایک طویل عرصے سے توانائی کی قلت میں مسلسل اضافے اور شدید معاشی بدحالی کا سامنا کر رہا ہے، نے پیٹرولیم مصنوعات خریدنے کے لیے ماسکو سے رجوع کیا۔ رواں سال مئی میں اسلام آباد حکومت نے اس امر کی تصدیق کی کہ روس کے ساتھ اُس کی پیٹرولیم مصنوعات کا ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ پیر بارہ جون کو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ روسی تیل کی پہلی کھیپ کراچی بندرگاہ پر اتار لی گئی ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 45 ہزار ٹن خام تیل سے لدا جہاز لنگر انداز ہو گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے پہلے ہی کہا تھا کہ کھیپ کی ادائیگی ''دوستانہ ممالک‘‘کی کرنسیوں میں کی جائے گی۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے امریکی ڈالر کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چُکے ہیں۔ گزشتہ شب یعنی اتوار کو شام گئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ٹویٹر پر لکھا،''یہ پاکستان میں روسی تیل کا پہلا کارگو ہے اور پاکستان اور روسی فیڈریشن کے درمیان نئے تعلقات کا آغاز ہے۔‘‘
شہباز شریف، جو اس سال کے آخر میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاری کر رہے ہیں، نے مزید کہا ''رعایتی خام تیل کے کارگو‘‘ کی پہلی کھیپ اتوار کو جنوبی شہر کراچی پہنچی اور اسے پیر کو اتارا جانا ہے۔‘‘
مقامی میڈیا نے بتایا کہ 100,000 میٹرک ٹن تیل کا کارگو ایک ماہ قبل روس سے روانہ ہوا تھا اور کراچی جانے سے پہلے عمان میں دو چھوٹے جہازوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جہاں اس وقت ہوش ربا مہنگائی، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور ڈالر کے ذخائر کی کمی کے سبب یہ ریاست دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دریں اثنا، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 6.5 بلین ڈالر کے قرض کے پیکیج کی اگلی قسط کو کسی طرح کھلوانے کے لیے مذاکرات مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں۔
اسلام آباد اپنی پیٹرولیم مصنوعات کا 84 فیصد درآمد کرتا ہے اور تاریخی طور پر ترسیل کے لیے دوست خلیجی ریاستوں پر انحصار کرتا ہے۔
عالمی بینک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ رواں سال روس کی معیشت میں اقتصادی پابندیوں کے باوجود بہتری آئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارت اور چین جیسے ممالک کے ساتھ روس کی توانائی کی برآمدات میں توقعات سے زیادہ بہتری نظر آ رہی ہے۔
ک م/ ع ت(اے ایف پی)