آلڈی نوویل ایڈیلانگ مچھلیاں پکڑنے کی اپنی چھوٹی سی کشتی پر روشنی کرنے والے کے طور پر تنہا ہی کام کرتے تھے جب ان کی یہ کشتی تیز ہواؤں کے سبب لنگر سے الگ ہو گئی تھی۔ انہیں جزیرہ گوام کے قریب سے ایک بحری جہاز نے بچایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Indonesian Consulate General In Osaka
اشتہار
انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک ٹین ایجر کو بحرالکاہل سے 49 روز بعد زندہ بچا لیا گیا۔ انڈونیشیا کے مقامی میڈیا کے مطابق 19 سالہ آلڈی نوویل ایڈیلانگ کی کشتی لنگر سے الگ ہونے کے بعد سمندری لہروں کے سبب ہزاروں کلومیٹر دور نکل گئی تھی۔ اس دوران اس نوجوان نے سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائی جبکہ اپنے کپڑوں کو بارش میں بگھو کر اس سے حاصل شدہ پانی کو پینے کے لیے استعمال کیا۔
جکارتہ پوسٹ کے مطابق آلڈی ’’دنیا کا سب سے زیادہ تنہائی کا حامل‘‘ کام کرتا تھا۔ اس کا کام مچھلیاں پکڑنے کے لیے بنائی گئی لکڑی کی ایک خصوصی کشتی پر رات کے اندھیرے میں روشنی کرنا تھا۔ اس کشتی کو رومپونگ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کشتی کو لکڑی کے گولوں کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے اور اس کے اوپر ایک چھوٹا سا لکڑی ہی سے بنا رہائشی کمرہ بھی موجود ہوتا ہے۔ آلڈی کا کام اس کشتی پر رات کی تاریکی میں لیمپ جلانا تھا تاکہ مچھلیاں روشنی دیکھ کر وہاں جمع ہوں۔ اُسے مسلسل چھ ماہ تک اس کشتی پر رہنا پڑتا تھا۔
انڈونیشیا کے شمالی سولاویسی علاقے سے سمندر میں 125 کلومیٹر کے فاصلے پر اس کی کشتی موجود رہتی تھی جبکہ اس دوران اس کا دنیا کے ساتھ واحد رابطہ مچھلیاں لے جانے اور اسے خوراک پہنچانے والی کشتیاں ہوتی تھیں یا پھر واکی ٹاکی۔
14 جولائی کو تیز سمندری ہواؤں کے سبب اس کی کشتی اینکر سے الگ ہو گئی۔ بغیر انجن اور بغیر پیڈل کے یہ کشتی تیز ہواؤں کے سبب وہاں سے ہزاروں کلومیٹر دور بحرالکاہل میں موجود امریکی جزیرے گوام کے قریب تک پہنچ گئی۔
جکارتہ پوسٹ کے مطابق آلڈی کے پاس جب خوراک کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اس نے سمندر سے پکڑی ہوئی مچھلیوں کو کشتی کے چھوٹے چھوٹے حصوں سے جلائی گئی آگ پر پکا کر کھانا شروع کر دیا۔
10 بحری جہاز قریب سے گزرے
جاپانی شہر اوساکا میں تعینات انڈونیشیا کے ایک سفارت کار فجر فردوس کے مطابق، ’’جب بھی آلڈی کسی بحری جہاز کو قریب سے گزرتا دیکھتا تو وہ اسے متوجہ کرنے کی پوری کوشش کرتا مگر اس دوران 10 بحری جہاز اسے دیکھے یا اس کی مدد کیے بغیر ہی وہاں سے گزر گئے۔‘‘
تاہم آلڈی 31 اگست کو پاناما کے پرچم والے ایک بحری جہاز کو اپنی شرٹ ہوا میں لہرا لہرا کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جہاز کے عملے کی طرف سے شدید کوشش کے بعد ایک رسے کے ذریعے بالآخر آلڈی کو اس کی کشتی سے اس بحری جہاز پر منتقل کر دیا گیا۔ اس بحری جہاز نے بعد ازاں جاپان پہنچ کر اس لڑکے کو انڈونیشیا کے حکام کے حوالے کیا۔ وہ نو ستمبر کو بالآخر واپس انڈونیشیا کے موناڈو نامی شہر میں واقع اپنے گھر اور اہل خانہ کے پاس پہنچا۔
تھائی غار میں پھنسے تمام افراد کو بچا لیا گیا
غوطہ خوروں کی ٹیم نے غار میں پھنسے آخری پانچ افراد کو بچانے کا آپریشن مکمل کر لیا ہے۔ قبل ازیں تھائی ریسکیو ورکرز کا اصرار تھا کہ وہ غار میں پھنسے تیرہ افراد کو بازیاب کرانے کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Tham Luang Rescue Operation Center
اتنے روز بعد بھی زندہ
12 نوجوان فٹ بال کھلاڑیوں اور ان کے کوچ کا سراغ ریسکیو غوطہ خوروں کو ان کی گم شدگی کے 10 روز بعد ملا تھا۔ غار کے اندر آکیسجن رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھی اور بارش کی وجہ سے اس غار میں پانی بھر جانے کا خطرہ تھا، یعنی آپریشن کے لیے وقت محدود تھا۔ جولائی کی آٹھ تاریخ کو ان میں سے چار نوجوانوں کو ریسکیو کیا گیا تھا۔ اب یہ مشن مکمل ہو چکا ہے۔ یہ غار انتہائی ناہم وار تھی اور کئی جگہوں پر زیرآب بھی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
بہت بڑا ریسکیو آپریشن
تھائی ریسکیو کارکنان کی مدد کے لیے ماہرین کی بین الاقوام ٹیم بھی جائے وقوعہ پر موجود تھی، جس میں چین، آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ کے ماہرین موجود تھے۔ تھائی نیوی سیل کے فیس بک صفحے پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی تھی، جس میں قریب دس کلومیٹر طویل اس غار میں یہ ماہرین کئی کلومیٹر اندر دکھائی دیے۔
سیلاب نے پھنسا دیا
11 تا 16 برس کی عمر کے لڑکے اور ان کا 25 سالہ کوچ سال گرہ کا جشن منانے غار میں گئے تھے۔ مگر وہ اس سیاحتی غار میں پھنس گئے۔ ماضی میں بھی اسی طرز کے واقعات اس جگہ رونما ہو چکے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ سیلابی پانی نے اچانک اس غار سے باہر نکلنے کا راستہ بند کر دیا۔ حکام نے ان افراد تک ہائی پروٹین خوارک تو پہنچا دی، جو یہ گروپ قریب چار ماہ تک استعمال کر سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua
ایک مشکل مشن
ریسکیو مشن کے لیے یہ کارروائی انتہائی دشور ثابت ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس غار میں کئی مقامات پر پانی کی سطح بلند تھی، جس میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ کئی جگہوں پر ریسکیو ورکز مجبور ریے اور آگے نہ بڑھ پائے۔ ماہر غوطہ خوروں کی خدمات حاصل کرنا تو آسان تھا، مگر غوطے خوری سے نابلد نوجوانوں کو باہر لانا مشکل۔
تصویر: Reuters/S. Zeya Tun
تمام افراد بچ گئے
پوری تھائی قوم اس ریسکیو مشن کی کوریج دیکھنے کے لیے ٹی وی سے لگی ملی۔ تھائی حکام کے مطابق وہ غار میں پھنسے اس گروپ کی سلامتی پر کسی سمجھوتے کو تیار نہیں تھے۔ وزیراعظم پرایوتھ چن اوچا نے بین الاقوامی ماہرین کا اس مدد پر شکریہ ادا کیا ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
خوشی کی لہر
غار میں پھنسے ان لڑکوں کے اہل خانہ کے والدین کو جب دس روز بعد یہ خبر ملی کے ان کے بچے زندہ ہیں، تو خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ غار میں پھنسے ایک لڑکے کی والدہ نے ٹی وی پر فوٹیج میں اپنے بچے کی تصویر دکھائے جانے پر کہا کہ میں اپنے بچے کی ایک جھلک پا کر ہی خوش ہو گئی۔
تصویر: Thai Navy Seal via AP
سب ریسکیو ہو گئے
13 غیرملکی غوطہ خوروں اور تھائی نیوی سیلز نے ایک مشترکہ آپریشن کے ذریعے غار میں پھنسے تمام لڑکوں اور ان کے کوچ کو ریسکیو کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Suwanrumpha
ہوا کیا؟
ریسکیو ورکرز کے پاس وقت کم تھا، مون سون بارشیں اس علاقے میں چند ہی روز میں متوقع ہیں۔ شدید بارشوں کی صورت میں اس غار میں مزید پانی بھر جائے گا۔ حکام کے مطابق اس غار میں موجود تمام افراد کو بچایا جا چکا ہے۔