کروڑوں سال پرانی پتھر نما ’چیز‘ کا راز معلوم ہو گیا
5 جولائی 2020
ٹیکساس یونیورسٹی کے سائسندانوں نے 66 ملین سال پرانے فوصل کا راز بالآخر معلوم کر لیا ہے۔ یہ فوصل 2011ء میں دریافت ہوا تھا اور تب سے سائنسدان اس کی حقیقت جاننے کی کوششوں میں لگے تھے۔
اشتہار
اس 'چیز‘ کی حقیقت ہے کیا؟
چِلی کے ماہرین نے یہ فوصل یا پتھر نما چیز کو 2011ء میں دریافت کیا تھا تاہم اس کی شناخت میں ناکامی کے بعد انہوں نے اسے ملکی عجائب گھر میں رکھ دیا تھا۔ جرمن میگزین 'فوکس‘ کے مطابق شناخت میں ناکامی کے سبب اسے محض ایک چیز یا 'دی تھنگ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا حجم ایک فٹبال کے برابر ہے۔
تاہم 2018ء میں ماہر رکازیات یا پلینٹالوجسٹ جولیا کلارک نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ چیز دراصل ایک بہت بڑے رینگنے والے جانور کا انڈا ہے۔ یہ مفروضہ اس وقت اس چیز کے حجم اور اس میں ڈھانچے کی غیر موجودگی کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا۔
بارہ ہزار سال پرانا ماموت کا ڈھانچہ نصف ملین یورو میں نیلام
فرانس میں تقریباﹰ بارہ ہزار سال پرانا، ہاتھیوں کی طرح کے لیکن معدوم ہو چکے ماموتوں کی نسل کے ایک اونی جانور کا بہت بڑا ڈھانچہ قریب ساڑھے پانچ لاکھ یورو میں نیلام کر دیا گیا۔ ماموت کا یہ ڈھانچہ سائبیریا سے ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
ہزارہا برس پرانا فیل پیکر کا ڈھانچہ
ماموت کا یہ ڈھانچہ فرانسیسی شہر لیوں میں پانچ لاکھ اڑتالیس ہزار یورو میں نیلام کیا گیا۔ یہ ڈھانچہ روس میں سائبیریا کے علاقے سے ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
کسی ماموت کا نجی ملکیت میں سب سے بڑا ڈھانچہ
3.4 میٹر بلند اس ڈھانچے کو ایک ایسے فرانسیسی صنعت کار نے خریدا، جس کی کمپنی کا لوگو بھی ایک ماموت کی شبیہ پر مشتمل ہے۔ اس تصویر میں اس ماموت کے ایک پاؤں کی ہڈیاں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
ریلوے اسٹیشن میں نیلامی
سائبریا سے ملنے والے اس فیل قامت کے ڈھانچے کی نیلامی لیوں شہر کے ایک ریلوے اسٹیشن میں کی گئی۔ اس ڈھانچے کی اونچائی 3.4 میٹر اور لمبائی 5.3 میٹر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
دانت اور اسّی فیصد ہڈیاں اصلی
ناپید ہو چکی قدیم حیوانی زندگی کے ماہر محققین کے مطابق اس ماموت کے دونوں بہت بڑے بڑے دانتوں کے علاوہ اس کی اسّی فیصد ہڈیاں بھی ابھی تک اپنی اصلی حالت میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
قریب بارہ ہزار سال پرانا اونی ماموت
یہ ڈھانچہ 11,700 برس قبل ختم ہونے والے اس دور کا ہے، جب ماموت ناپید ہو رہے تھے اور کرہء ارض کے مختلف حصوں میں جدید دور کے انسان کا پھیلاؤ شروع ہو چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
کمپنی ہیڈکوارٹر میں مستقل نمائش کا ارادہ
اسٹراسبرگ کے قریب واٹر پروفنگ میٹریل بنانے والی کمپنی سوپریما کے مالک اور اس ڈھانچے کے خریدار اسے اپنی کمپنی کے ہیڈکوارٹر میں مرکزی دروازے کے قریب ایک ہال میں مستقل نمائش کے لیے رکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Juste
6 تصاویر1 | 6
تاہم سائنسدانوں کی طرف سے رواں برس اس چیز کے کیمیائی تجزیوں نے جولیا کلارک کے اُس مفروضے کی تصدیق کر دی جس میں انہوں نے اسے ایک انڈا قرار دیا تھا۔ کلارک نے مفروضہ اپنے ریسرچ پیپر میں پیش کیا تھا جس کی وہ شریک مصنف تھیں اور یہ معروف سائنسی تحقیقی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہوا تھا۔
یہ انڈا ہے کس جاندار کا؟
جرمن اخبار 'ڈوئچے سائٹنگ‘ کے مطابق یہ فوصل 28 سینٹی میٹر لمبا اور 18 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ یہ سب سے بڑا سافٹ شیل انڈا ہے، اور اب تک دریافت ہونے والا دوسرا سب سے بڑا انڈا ہے۔ یہ سانپ کے انڈے کی شکل کا ہے اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جس جاندار کا انڈا ہوسکتا ہے اس کی کم سے کم لمبائی بھی سات میٹر رہی ہو گی۔
سائسندان ابھی تک اس جاندار کی شناخت کی کوشش میں ہیں۔ تاہم ان کا اندازہ ہے کہ یہ 'موزاسوریت‘ خاندان کے رینگنے والے سمندری جانوروں کے خاندان سے ہو سکتا ہے، جو کئی ملین سال قبل زمین پر وجود رکھتے تھے۔
سائسندانوں کو اسی مقام سے اس جاندار کے ڈھانچے بھی مل چکے ہیں جہاں سے انہیں یہ انڈا ملا تھا۔ تاہم اب تک کی معلومات کے مطابق یہ قسم انڈوں کی بجائے بچے دیا کرتی تھی۔ بعض سائسندانوں کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسے جل تھلی یا ایمفیبیئن جاندار کا بھی ہو سکتا ہے جو بہت پہلے ناپید ہو گئے ہوں۔ ایمفیبیئن جاندار پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکتے ہیں۔
ٹریسٹن، ڈائنو سارز کے بادشاہ کی برلن آمد
صفحہ ہستی سے معدوم ہو جانے والے حیوان ڈائنو سارز کے دنیا بھر میں صرف پچاس ڈھانچے موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر امریکا میں ہیں۔ اب ایسا ہی ایک قدیم ڈھانچہ آئندہ تین سال کے لیے نیچرل ہسٹری میوزیم برلن میں رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
وزنی سر
اس ڈائنو سار کے جسم کی لمبائی بارہ میٹر ہے لیکن اس کے باوجود ڈھانچے کے لیے سر بہت وزنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا سر ایک علیحدہ کیس میں رکھا گیا ہے۔ ایک تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے سر کی ایک ہلکے وزن والی کاپی بھی تیار کی گئی ہے۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
امریکا سے ایکسپرس ڈیلیوری
ڈھانچے کے تمام حصوں کو جوڑنے کے لیے نیچرل ہسٹری میوزیم برلن کی ٹیم کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت تھا۔ اس ڈائنو سار کا ڈھانچہ امریکی ریاست مونٹانا سے دریافت ہوا تھا۔ اس کے حصوں کو کئی بکسوں میں بند کرتے ہوئے برلن بھیجا گیا۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
شہرت یافتہ ڈائنو سار
ویسے تو یہ قدیم حیوان کی نسل تقریباﹰ پینسٹھ ملین برس پہلے ختم ہو گئی تھی لیکن ان کو شہرت ’’جراسک پارک‘‘ جیسی ایڈونچر فلم نے دی۔ محقیقین کا کہنا ہے کہ ہالی وڈ میں ڈائنو سارز کی کردار سازی کے برعکس یہ جانور مردار خور تھے نہ کہ حملہ آور۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
کروڑ پتی مالک
ڈین نیلز نیلسن بچپن ہی سے ڈائنو سارز سے متاثر تھے۔ بعد میں وہ لندن کے کامیاب سرمایہ کار بینکر بن گئے۔ یہ ان کی دولت اور قسمت تھی کہ وہ سب سے اچھی حالت میں ملنے والے ڈائنو سار کے ڈھانچے کے مالک بنے اور اس کو اپنے بیٹے ٹریسٹن کا نام دیا۔
تصویر: Niels Nielsen
تین برس برلن میں
ٹریسٹن کی تین برس تک برلن میں نمائش جاری رہے گی اور اس میں کئی دیگر ڈائنو سارز کے بھی ڈھانچے رکھے جائیں گے۔ ان کو برلن لانے کے لیے اچھی خاصی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اب برلن ایک نئی کشش فخر کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
ایک نئی کشش
امید کی جا رہی ہے کہ نمائش میں ٹریسٹن کی شمولیت سے نیچرل ہسٹری میوزیم برلن میں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوگا۔ اس نمائش میںDysalotosaurus نامی ڈائنو سار کا ڈھانچہ رکھا گیا ہے۔ اس کے دانتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جانور اور پودے دونوں ہی اس کی خوراک تھے۔
تصویر: Museum für Naturkunde Berlin
ڈائنوسارز سے محبت
نیچرل ہسٹری میوزیم برلن ایک طویل عرصے سے ڈائنو سارز کی محبت میں مبتلا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں بھی اس میوزیم نے آج کے تنزانیہ میں ڈائنو سارز کے ڈھانچوں کی تلاش میں ایک مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت یہ مشن اپنے حوالے سے کامیاب ترین رہا تھا اور دو سو پچاس ٹن فوصل برلن بھیجی گئیں تھیں۔
تصویر: Museum für Naturkunde Berlin
برلن کا پرکشش مقام
نیچرل ہسٹری میوزیم کا افتتاح 1889ء میں کیا گیا تھا۔ یہ قدرتی تاریخ کے حوالے سے جرمنی کا سب سے بڑا میوزیم ہے۔ اس نمائش کا مرکز ’ارتقاء‘ ہے۔ سالانہ تقریباﹰ پانچ لاکھ افراد اس میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Kirchhoff
8 تصاویر1 | 8
تازہ تحقیق کے مصنف لوکس لیجنڈرے کے بقول، ''نرم شیل کے حامل کسی انڈے کا اس حد تک محفوظ شکل میں ملنا انتہائی نادر واقعہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دریافت سے زندگی اور قدیم دور میں مختلف جانداروں کے بارے میں تحقیق کو ایک نئی سمت ملے گی۔