دوسری عالمی جنگ کے دوران بحرالکاہل میں جاپانی آبدوز کے ہاتھوں تباہ ہونے والے امریکی جنگی بحری بیڑے ’انڈیاناپولِس‘ کا ملبہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ انڈیاناپولِس کا ملبہ مائکروسافٹ کے بانی پال ایلن کی ٹیم نے ڈھونڈا۔
اشتہار
ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے پرزے انڈیاناپولِس ہی کے ذریعے بھیجے گئے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما پر بم گرائے جانے کے محض دو دن بعد تیس جولائی سن 1945 کی شب بحر الکاہل میں جاپانی آبدوز نے اسے تباہ کر دیا تھا۔
اس وقت امریکی جنگی بحری جہاز انڈیاناپولِس گوام اور فلپائن کے درمیان بحرالکاہل میں سفر کر رہا تھا۔ بحرالکاہل کے اس مقام پر شارک مچھلیوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔
جاپانی آبدوز کے حملے کے بارہ منٹ بعد ہی چھ سو فٹ طویل انڈیاناپولِس غرق ہو گیا تھا۔ امریکی جنگی جہاز کے عملے کی تعداد تقریباﹰ بارہ سو تھی جن میں سے آٹھ سو افراد حملے کے بعد بچ گئے تھے۔
انڈیاناپولِس کی تباہی کے بعد بچ جانے والے عملے کے ارکان کی نشاندہی ساڑھے تین دن بعد ہوئی تھی لیکن تب تک ان آٹھ سو ارکان میں سے زیادہ تر شارک مچھلیوں کا شکار ہو چکے تھے۔ امریکی نیوی کے جو اہلکار اس سارے واقعے کے بعد بھی زندہ بچ گئے، ان کی تعداد صرف 317 تھی۔
انڈیاناپولِس کی تباہی کو امریکی بحریہ کی تاریخ میں کسی ایک حملے میں عملے کی ہلاکتوں کے اعتبار سے سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اپنی تباہی سے کچھ دن قبل ہی انڈیاناپولِس کے ذریعے ہی امریکی نیوی نے یورینیم اور ایٹم بم میں استعمال ہونے والے دیگر پرزے تینیان جزیرے پر پہنچائے تھے۔ مشن کو خفیہ رکھنے کے غرض سے انڈیاناپولِس کو اس سفر پر تنہا ہی روانہ کیا گیا تھا۔ بعد کچھ دن بعد یہی ایٹم بم ہیروشیما پر گرایا گیا تھا، جس کے دو دن بعد جاپانی آبدوز نے انڈیاناپولِس کو تباہ کر دیا تھا۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/R. Ozawa
10 تصاویر1 | 10
امریکی نیوی کے اس بحری جہاز کے بچ جانے والے عملے میں سے انیس افراد اب بھی زندہ ہیں۔ امریکی نیوی ان ارکان اور عملے کے دیگر ارکان کے اہل خانہ کے اعزاز میں تقریب معنقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انڈیاناپولِس کے ملبے کی تلاش کے لیے متعدد بار کوششیں بھی کی گئیں۔ گزشتہ برس امریکی نیوی کے تاریخ دانوں نے اس بحری جہاز کی نقل و حرکت کے بارے میں نئی معلومات جمع کی تھیں۔
انہی معلومات کی روشنی میں مائکروسافٹ کے شریک بانی پاؤل ایلن کی قیادت ایک سویلین ٹیم نے بحرالکاہل میں چھ سو مربع میل کے علاقے میں انڈیاناپولِس کے ملبے کی تلاش کا مشن شروع کر رکھا تھا۔ اس ٹیم کے پاس جدید آلات سے لیس بحری جہاز تھا۔ تیرہ ارکان پر مبنی یہ ٹیم سمندر کی گہرائی میں چھ ہزار میٹر تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
ڈریسڈن جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک تھا لیکن پھر ٹھیک ستّر برس پہلے دوسری عالمی جنگ میں اس پر اتحادی افواج نے اتنی شدید بمباری کی کہ پچیس ہزار انسان زندہ جل گئے اور شہر راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Getty Images/Matthias Rietschel
بمباری، تباہی اور لوٹ مار
دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ فروری 1945ء کو انگلینڈ سے 245 لنکاسٹر طیارے روانہ ہوئے، جن کا رُخ جرمن شہر ڈریسڈن کی جانب تھا۔ شب 9 بج کر 39 منٹ پر شہر میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی موت کا کھیل شروع ہو گیا اور صرف 23 منٹ میں اس پر برسائے گئے بموں نے شہر کے مرکزی حصے میں ایک سے دوسرے سرے تک آگ لگا دی۔ برطانوی اور امریکی طیاروں کی بمباری نے شہر کے پندرہ کلومیٹر علاقے کو ملیا میٹ کر ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائل چیپل کھنڈر میں تبدیل
وسط فروری 1945ء میں ہونے والی اس بمباری میں ڈریسڈن کے رائل چیپل (گرجا گھر) کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چھت اور گنبد منہدم ہو کر اندر جا گرے۔ یہ چرچ جرمن صوبے سیکسنی میں بننے والی بڑی کلیسائی عمارات میں سے ایک ہے۔ باقی جرمنی کی طرح یہاں بھی ملبہ ہٹانے کا کام بڑی حد تک خواتین نے انجام دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مارٹن لُوتھر بھی نہ بچ سکے
’چرچ آف آور لیڈی‘ کے عین سامنے ممتاز مصلح مارٹن لُوتھر کے لیے بنائی گئی یادگار واقع ہے۔ یہ یادگار بھی بمباری کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مارٹن لُوتھر کا یہ مجسمہ نامور مجسمہ ساز آڈولف فان ڈونڈورف نے 1861ء میں تخلیق کیا تھا لیکن اسے نصب کہیں 1885ء میں کیا گیا۔ لُوتھر نے 1516ء اور 1517ء میں ڈریسڈن کے دورے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بے دریغ بمباری کی ایک نمایاں مثال
ڈریسڈن میں باروک طرزِ تعمیر کا شاہکار ’چرچ آف آور لیڈی‘ 1726ء اور 1743ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ ستر سال پہلے کی بمباری سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ 1993ء تک اِسے اسی حالت میں ’بے دریغ بمباری کی ایک یادگار‘ کے طور پر باقی رکھا گیا تاہم تب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی چوٹی پر نصب سنہری صلیب برطانیہ کے ایک ایسے کاریگر نے تیار کی، جس کے والد نے پائلٹ کے طور پر اس شہر پر کی گئی بمباری میں حصہ لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
شہر کی نمایاں ترین علامت ایک نئی شان کے ساتھ
1994ء سے لے کر 2005ء تک ’چرچ آف آور لیڈی‘ کو دنیا بھر سے آنے والے عطیات کی مدد سے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً 130 ملین یورو لاگت آئی۔ اکیانوے میٹر بلند یہ چرچ اور اس کے آس پاس باروک طرزِ تعمیر میں بنائی گئی رہائشی عمارات صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں سیاحوں کی توجہ کا ایک نیا مرکز بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
تباہی کے اثرات ڈھونڈے سے نہیں ملتے
آج کل سیاح ڈریسڈن کے مرکز میں واقع پیلس اسکوائر اور کیتھولک رائل چیپل کی سیر کرتے ہیں اور بحالی کے بعد نئی آن بان کے ساتھ کھڑی ان عمارات کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیکسنی بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کا صوبہ تھا تاہم پولینڈ کی بادشاہت کے تاج کا حقدار ہونے کے لیے آؤگسٹ ڈیئر شٹارکے نے کیتھولک عقیدہ اپنا لیا تھا اور اِسی لیے اُنہوں نے 1739ء اور 1754ء کے درمیان یہ کیتھولک عبادت گاہ بنوائی۔
تصویر: picture alliance/Johanna Hoelzl
نئی آن بان کے ساتھ
فروری 1945ء میں تباہ ہونے والی لُوتھر کی یادگار کی مرمت اور تجدید کا کام کہیں 1955ء میں عمل میں آیا۔ اس مجسمے کی بحالی کا عمل 2003ء اور 2004ء میں انجام پایا۔ تب تک یہ مجسمہ جنگ اور تباہی کی ایک یادگار کے طور پر ’چرچ آف آور لیڈی‘ کے سامنے پڑا رہا۔ آج کل یہ مجسمہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور شہر بھر کے نوجوان بھی اسی کے سائے میں ایک دوسرے سے ملتے اور یہاں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
تصویر: imago/Chromorange
ایلبے کا فلورنس
آج کا ڈریسڈن ایک بار پھر جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے ایلبے اس کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی باروک طرزِ تعمیر کی حامل عمارات کی وجہ سے ڈریسڈن کو ’ایلبے کا فلورنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈریسڈن کی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں یہ جرمنی کے بارہ بڑے شہروں میں سے ایک گنا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Lander
2015ء میں 1945ء کی تباہی کا نظارہ
ڈریسڈن ہی میں مقیم ماہرِ تعمیرات یادگار عزیزی نے، جن کے والدین کا تعلق ایران سے ہے، گیس کی ایک بڑی سابقہ ٹینکی کے اندر دیواروں پر 1945ء کی تباہی کی تصاویر کچھ اس انداز سے آویزاں کی ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر انسان خود کو اُس سارے منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور انتہائی قریب سے دیکھتا ہے کہ کیسے ڈریسڈن شہر کا مرکز آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔