پاکستان: پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کے لیے سمارٹ کارڈز جاری
بینش جاوید
5 جنوری 2022
اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان کو ملک بھر میں چودہ لاکھ مہاجرین کی تصدیق کرنے، ان کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے اور انہیں سمارٹ شناختی کارڈ جاری کرنے پر سراہا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دس برسوں میں اتنے وسیع پیمانے پر مہاجرین کی تصدیق اور ان کی معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی معاونت سے جاری اس مہم میں ابتدائی طور پر قریب بارہ لاکھ مہاجرین کے کوائف کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اس میں دو لاکھ بچوں کی معلومات بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز گزشتہ سال اپریل سے ہوا تھا۔
اب تک سات لاکھ مہاجرین کو سمارٹ شناختی کارڈز دے دیے گئے ہیں۔ باقی کارڈز اسی سال کے ابتدائی مہینوں میں دے دیے جائیں گے۔
سمارٹ کارڈز مہاجرین کو تحفظ فراہم کریں گے
ان کارڈز کی مدت تین جون 2023ء تک ہے۔ ان میں بائیومیٹرک ڈیٹا ہے جو کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی سے مماثلت رکھتا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان بابر بلوچ کا کہنا ہے، ''یہ سمارٹ شناختی کارڈز افغان مہاجرین کو تحفظ فراہم کریں گے اور انہیں صحت، تعلیمی اور بینکنگ کی سہولیات حاصل کرنا آسان ہو گا۔''
بابر بلوچ کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے افغان مہاجرین پہلے سے بہتر انداز میں اپنے مسائل کو رپورٹ کر سکیں گے۔ بابر بلوچ کے مطابق،''مہاجرین کی اقتصادی اور سماجی معلومات سے پاکستان میں انہیں بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مدد ملے گی اور وہ مہاجرین جو واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں انہیں بھی مدد فراہم کی جائے گی۔''
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
افغان شہریوں کی پاکستان آمد کی تاریخ
پاکستان میں قریب تین ملین افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے نصف غیر تصدیق شدہ ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد پہلی مرتبہ سوویت جنگ کے دوران ہوئی تھی۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت کی جانب سے انہیں ملک میں خوش آمدید کہا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم انیس سو نوے کی دہائی میں کچھ افغان مہاجرین پر امن علاقوں میں واپس چلے گئے تھے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تب بھی مزید مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ تاہم کچھ عرصے بعد کابل اور بڑے شہروں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے کئی مہاجرین واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
گزشتہ برس جب طالبان کی جنگی کارروائیوں میں تیزی آئی اور امریکی فوجیوں کے انخلاء کی تاریخ قریب آنے لگی تو ایک مرتبہ پھر افغان مہاجرین نے بیرون ملک جانا شروع کیا۔ اور طالبان کے اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ لیکن اس مرتبہ بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا چکا ہے۔ اور چمن اور طورخم بارڈر پر بغیر دستاویزات افغان شہریوں کے پاکستان آنے کے امکانات کافی کم ہیں۔