ایک سو سے زائد افغان صحافیوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
اشتہار
اس حوالے سے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) کے نام لکھے گئے ایک خط میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ خط کے مطابق فوٹوگرافروں اور رپورٹرز پر حملوں اور میڈیا کے کام میں طالبان کی مداخلت نے خوف کو بدترین حد تک بڑھا دیا ہے۔ اس اپیل پر مختلف سیاسی اور نسلی گروہوں کے میڈیا نمائندوں نے دستخط کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افغانستان میں ہی قیام پذیر ہیں جبکہ بعض روپوش ہو چکے ہیں۔ اس خط پر دستخط کرنے والے دس صحافی بیرونی ممالک جا چکے ہیں۔
صحافیوں کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ سب سے اہم خواتین صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ آر ایس ایف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسچئن مہر کا کہنا ہے، ''طالبان نے ثابت کیا ہے کہ وہ آزاد صحافت کو برداشت نہیں کریں گے، نہ کابل میں اور نہ ہی دیگر صوبوں میں۔ خطرہ ہے کہ افغانستان طالبان کی سابقہ حکومت کے پانچ تاریک سالوں میں واپس لوٹ سکتا ہے۔‘‘
صحافیوں نے عالمی برادری سے اپیل میں کہا کہ افغان نیوز رومز کو فعال کرنے کے لیے ٹھوس مدد پر زور دیا جائے جبکہ وہ صحافی، جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے، انہیں ملک سے باہر جانے میں سفارتی اور مالی مدد بھی فراہم کی جائے۔ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ وہ صحافی، جو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، انہیں میزبان ممالک کو صحافتی اداروں میں نوکریاں دینی چاہئیں۔
آر ایس ایف کی جانب سے جرمن وزارت داخلہ کے 'انتہائی خطرے سے دوچار 2600 افغان شہریوں‘ کو قبول کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اس تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے 152 صحافیوں کی فہرست جرمن وزارت خارجہ کے حوالے کر دی ہے اور اس میں خواتین صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
ب ج، ا ا
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔