افغانستان میں عسکریت پسند طالبان کا کہنا ہے کہ وہ موبائل ایپ ٹک ٹاک اور پب جی نامی گیم پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایپس نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔
اشتہار
یہ دونوں فون ایپس نوجوان افغانوں میں کافی مقبول ہیں جنہیں پہلے ہی انٹرٹینمنٹ کے بہت کم ذرائع میسر ہیں۔ گزشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے موسیقی، فلموں اور کئی ٹی وی ڈراموں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
طالبان حکومت کی کابینہ کا کہنا ہے، '' یہ ایپس نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹیلی کمیونیکیشنز کی وزارت کو ان ایپس کو بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
طالبان کی کابینہ نے وزارت کو ایسے ٹی وی چینلز کو بند کرنے کا بھی حکم دیا ہے جو 'غیر اخلاقی‘ مواد نشر کر رہے ہیں حالانکہ افغان چینلز پر زیادہ تر خبریں اور مذہبی مواد نشر کیا جاتا ہے۔
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن سکتا ہے
افغانستان دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بننے کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا بھر نے افغانستان کی امداد بند کر دی تھی۔ افغانستان کے حالیہ بحران سے متعلق چند حقائق اس پکچر گیلری میں
تصویر: Ali Khara/REUTERS
تئیس ملین افغان بھوک کا شکار
عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔
ملک کی آبادی کا قریب بیس فیصد خشک سالی کا شکار ہے۔ اس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے اور ان کی آمدنی کا 85 فیصد حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Rahmat Alizadah/Xinhua/imago
اندرونی نقل مکانی
پینتیس لاکھ افغان شہری تشدد، خشک سالی اور دیگر آفتوں کے باعث اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ صرف گزشتہ برس ہی سات لاکھ افغان شہریوں نے اپنا گھر چھوڑا۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
غربت میں اضافہ
اقوام متحدہ کے مطابق اس سال کے وسط تک اس ملک کی 97 فیصد آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔ طالبان کےا قتدار سے قبل نصف آبادی غربت کا شکار تھی۔ 2020 میں فی کس آمدنی 508 ڈالر تھی۔ اس سال فی کس آمدنی 350 ڈالر تک گر سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق کم از کم دو ارب ڈالر کی امداد کے ذریعے ملکی آبادی کو شدید غربت سے غربت کی عالمی طے شدہ سطح پر تک لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP
بین الاقوامی امداد
طالبان کے اقتدار سے قبل ملکی آمدنی کا چالیس فیصد بین الاقوامی امداد سے حاصل ہوتا تھا۔ اس امداد کے ذریعے حکومت کے اخراجات کا 75 فیصد پورا کیا جاتا تھا۔ ورلڈ بینک کے مطابق سالانہ ترقیاتی امداد، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد معطل کر دی گئی، سن 2019 میں 4.2 ارب ڈالر تھی۔ یہ امداد سن 2011 میں 6.7 ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
خواتین کا کردار
خواتین کی ملازمت پر پابندی جیسا کہ طالبان نے کیا ہے وہ معیشت کو 600 ملین ڈالر سے لے کر ایک ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance
حالیہ امداد
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے انسانی امداد کا ایک چھوٹا سا حصہ ابھی بھی اس ملک کو دیا جارہا ہے۔ 2021 میں افغانستان کو 1.72 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ ب ج، ا ا (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
تصویر: HOSHANG HASHIMI/AFP/Getty Images
8 تصاویر1 | 8
طالبان بین الاقوامی امیدوں کے خلاف
طالبان کی جانب سے بہت سخت قوانین کو نافذ نہ کرنے کے وعدے کیے گئے تھے۔ سن 1996 سے 2001 میں ان کی حکومت نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی تھی، خواتین کو اکیلے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی اور موسیقی اور رقص وغیرہ پر بھی پابندی عائد تھی۔ پتنگ بازی پر بھی پابندی تھی۔
اب اس نئی حکومت میں دھیرے دھیرے طالبان ایسی پابندیاں عائد کر رہے ہیں جو کم ازکم مغربی دنیا کو قبول نہیں۔ طالبان نے اب بھی بچیوں کے سیکنڈری اسکولوں میں پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ کسی مرد کے بغیر اب بھی خواتین کو تنہا سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس جنگ زدہ ملک میں صرف نو ملین افراد کو انٹرنیٹ کی رسائی حاصل ہے۔ 36 ملین آبادی کے ملک میں صرف چار ملین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں۔
ب ج، ع ق (اے ایف پی)
افغان لڑکیوں کی ٹیم: ’فٹ بال کھیلنا آزادی کےمانند ہے‘