افغانستان کے مشرقی حصوں میں گزشتہ شب آنے والے زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 950 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی بختار کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 600 دیگر افراد زخمی بھی ہیں۔
اشتہار
افغانستان کی سرکاری نیوز ایجنسی بختار کے مطابق متاثرہ علاقے میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امدادی ٹیمیں پہنچائی جا رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.1 ریکارڈ کی گئی ہے جس سے صوبہ پکتیکا سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ مقامی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر مرکزی حکومت کی طرف سے فوری طور پر ایمرجنسی مدد فراہم نہ کی گئی تو ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان کے لیے مزید مشکلات
افغانستان کو زلزلے کی تباہی کا ایک ایسے وقت سامنا ہے جب بین الاقوای کمیونٹی اس جنگ زدہ ملک کو اس کے حال پر چھوڑ چکی ہے۔ طالبان اقتدار میں ہیں لیکن عالمی رہنما ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ اور کچھ دیگر امدادی ادارے بھوک اور غربت کے شکار افغان شہریوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن یہ امداد 38 ملین افراد کے اس ملک کے لیے ناکافی ہے۔
نیوز ایجنسی بختار کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید ریان نے زلزلے سے متعلق ٹوئٹر پر کہا کہ پکتیکا میں 90 گھر تباہ ہو گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ درجنوں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
7 تصاویر1 | 7
بڑے پیمانے پر تباہی
پاکستانی سرحد کے قریبی علاقوں سے حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان علاقے میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پراس علاقے میں پتھروں سے بنے گھروں کی تباہ شدہ تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان گھروں کے رہائشی اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کے ملبے کو صاف کرتے بھی دکھائی دیے۔
طالبان حکومت کے نائب ترجمان بلال کریمی کا کہنا ہے، ''پکتیکا صوبے کے چار اضلاع کو شدید نوعیت کے زلزلے نے متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں، درجنوں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔‘‘ بلال کریمی نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کریں۔
زلزلے کے جھٹکے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔ 'یورپین سیسمولوجیکل ایجنسی‘ کے مطابق اس زلزلے کے جھٹکے افغانستان، پاکستان اور بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔
افغانستان اور جنوبی ایشیا جہاں 'انڈین ٹیکٹانک پلیٹس‘ ملتی ہیں، شدید زلزلوں کے خطرے سے دوچار علاقے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ان علاقوں میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی دیکھی گئی ہے۔