افغان طالبان اور مقامی گروہ میں لڑائی، ہزاروں بے گھر
23 جولائی 2022
جب گزشتہ ماہ جب شمالی افغانستان میں طالبان اور ان سے الگ ہونے والے گروہ کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تو زہرہ اور اس کے خاندان کو تشدد سے بھاگنے کے لیے پہاڑوں کی طرف فرار ہونا پڑا۔
اشتہار
کئی دنوں تک وہ کٹھن راستوں پر چلتے رہے یہ جانے بنا کہ جب وہ واپس اپنے صوبے سرِ پل میں واپس جائیں گے تو کیسے حالات ہوں گے۔ 35 سالہ زہرہ کا کہنا ہے، ''ہم اس لڑائی میں پھسننا نہیں چاہتے تھے، ہم وہاں ہوتے تو مارے جاتے۔‘‘
زہرہ کا خاندان ان ہزاروں خاندانوں میں شامل ہے جو طالبان اور اسی گروہ کے بامیان صوبے کے سابق انٹیلجنس چیف مہدی مجاہد کے حمایتی عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے باعث اپنے گھروں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اشتہار
کوئلے کے ذخائر لڑائی کی وجہ
نسلی تناؤ، مذہبی فرقہ واریت اور بلخاب نامی ضلع میں موجود کوئلے کے ذخائر اس لڑائی کی بڑی وجہ ہیں۔ تجزیہ کار نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ یہ سارے عوامل اس تنازعہ کو فروغ دے رہے ہیں۔
مہدی مجاہد شیعہ ہزارہ مسلم ہیں لیکن وہ سنی اکثریتی طالبان تحریک میں سن 2019 میں شامل ہوئے تھے۔ انہیں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بامیان صوبے میں انٹیلیجنس چیف کے عہدے پر فائز کیا تھا۔
افغانستان میں ہزارہ برادری کو شدید تعصب کا سامنا ہے اور انہیں کئی سالوں سے طالبان کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ دہشت گرد گروپ داعش بھی ہزارہ برادری کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے۔
مجاہد کی تعیناتی کو طالبان کی جانب سے اقلیتوں کو نمائندگی دیے جانے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن مجاہد جلد ہی طالبان سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق مجاہد کی طالبان سے علیحدگی کی وجہ کابل کی جانب سے کوئلے کے کاروبار پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
بلخاب کوئلے کی کئی کانوں کا گھر ہے اور حالیہ مہینوں میں پاکستان میں توانائی کے بحران نے یہاں کے کوئلے کی مانگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
مقامی طالبان کمانڈر پاکستان جاتے ہوئے ٹرکوں سے اضافی پیسے وصول کرتے تھے جیسا کہ سابقہ حکومت کے عہدیدارکیا کرتے تھے لیکن جب مجاہد نے اس عمل کو روکنے کے لیے کابل کی کوششوں کی مزاحمت کی تو انھوں نے مجاہد کو برطرف کر دیا۔
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
7 تصاویر1 | 7
ہزاروں افراد بے گھر
جون میں ہونے والی یہ لڑائی صرف چند دنوں تک جاری رہی لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے کم از کم 27,000 افراد کو بے گھر کیا جن میں سے تقریباً سبھی ہزارہ تھے۔
نتیجہ ایک انسانی بحران ہے جس سے نمٹنے کے لیے امدادی ادارے اب جدوجہد کر رہے ہیں۔ زہرہ نے بتایا، ''ہم خالی پیٹ اور پیاسے سوتے تھے اور صبح اٹھ کر دوبارہ چلنا شروع کر دیتے تھے۔‘‘ زہرہ کے خاندان نے بامیان کے ایک گاؤں کی مسجد میں پناہ حاصل کرنے سے پہلے تقریباً پندرہ دن کی مسافت طے کی تھی۔ اس کے مطابق، ''ہر کوئی بیمار تھا۔‘‘
بلخاب کے ایک اور رہائشی برات علی سبحانی کے خاندان نے بھی اسی مسجد میں پناہ لے رکھی ہے۔ سبحانی کے مطابق،''ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ہم صرف ان کپڑوں میں سفر پر روانہ ہو گئے جو ہم نے پہن رکھے تھے۔‘‘ سبحانی کا کہنا ہے کہ ان کا سات افراد پر مشتمل کنبہ چار دن تک پیدل چلا پھر ایک چرواہے نے انہیں مسجد تک پہنچایا۔ سبحانی کا کہنا ہے، ''ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہم مر جائیں گے۔‘‘
ادھر وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کے مطابق بلخاب میں مجاہد اور ان کے جنگجو پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے ہیں اور لڑائی رک گئی ہے۔
لیکن انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان فورسز پر وہاں شہریوں کو پھانسی دینے کا الزام لگایا ہے جس کی کابل نے تردید کی ہے۔ ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''لوگ خوفزدہ ہیں، جس کی وجہ سے وہ اب بھی وہ پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘‘
ب ج/ ش ح (اے ایف پی)
طالبان کے راج ميں زندگی: داڑھی، برقعہ اور نماز
افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام سے ايک طرف تو بين الاقوامی سطح پر سفارت کاری کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر ايک عام آدمی کی زندگی بالکل تبديل ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کے افغانستان ميں زندگی کی جھلکياں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
برقعہ لازم نہيں مگر لازمی
افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
داڑھی کٹوانے پر پابندی
طالبان نے حکم جاری کيا ہے کہ حجام داڑھياں نہ کاٹيں۔ يہ قانون ابھی صوبہ ہلمند ميں نافذ کر ديا گيا ہے۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ آيا اس پر ملک گير سطح پر عملدرآمد ہو گا۔ سن 1996 سے سن 2001 تک طالبان کے سابقہ دور ميں بھی مردوں کے داڑھياں ترشوانے پر پابندی عائد تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan
سڑکوں اور بازاروں ميں طالبان کا راج
طالبان کی کابل اور ديگر حصوں پر چڑھائی کے فوری بعد افراتفری کا سماں تھا تاہم اب معاملات سنبھل گئے ہيں۔ بازاروں ميں گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ يہ کابل شہر کا پرانا حصہ ہے، جہاں خريداروں اور دکانداروں کا رش لگا رہتا ہے۔ ليکن ساتھ ہی ہر جگہ بندوقيں لٹکائے طالبان بھی پھرتے رہتے ہيں اور اگر کچھ بھی ان کی مرضی کے تحت نہ ہو، تو وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
خواتين کے حقوق کی صورتحال غير واضح
بيوٹی پارلرز کے باہر لگی تصاوير ہوں يا اشتہارات، طالبان کو اس طرح خواتين کی تصاوير بالکل قبول نہيں۔ ملک بھر سے ايسی تصاوير ہٹا يا چھپا دی گئی ہيں۔ افغانستان ميں طالبان کی آمد کے بعد سے خواتين کے حقوق کی صورتحال بالخصوص غير واضح ہے۔ چند مظاہروں کے دوران خواتين پر تشدد بھی کيا گيا۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بچياں سيکنڈری اسکولوں و يونيورسٹيوں سے غائب
افغان طالبان نے پرائمری اسکولوں ميں تو لڑکيوں کو تعليم کی اجازت دے دی ہے مگر سيکنڈری اسکولوں میں بچياں ابھی تک جانا شروع نہیں ہوئیں ہيں۔ پرائمری اسکولوں ميں بھی لڑکوں اور لڑکيوں کو عليحدہ عليحدہ پردے کے ساتھ بٹھايا جاتا ہے۔ کافی تنقيد کے بعد طالبان نے چند روز قبل بيان جاری کيا تھا کہ سيکنڈری اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں لڑکيوں کی واپسی کے معاملے پر جلد فيصلہ کيا جائے گا۔
تصویر: Felipe Dana/AP Photo/picture alliance
کھيل کے ميدانوں سے بھی لڑکياں غير حاضر
کرکٹ افغانستان ميں بھی مقبول ہے۔ اس تصوير ميں کابل کے چمن ہوزاری پارک ميں بچے کرکٹ کھيل رہے ہيں۔ خواتين کو کسی کھيل ميں شرکت کی اجازت نہيں۔ خواتين کھلاڑی وطن چھوڑ کر ديگر ملکوں ميں پناہ لے چکی ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
بے روزگاری عروج پر
افغانستان کو شديد اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس ملک کے ستر فيصد اخراجات بيرونی امداد سے پورے ہوتے تھے۔ یہ اب معطل ہو چکے ہیں۔ ايسے ميں افراط زر مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ يوميہ اجرت پر کام کرنے والے يہ مزدور بيکار بيٹھے ہيں۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
نماز اور عبادت، زندگی کا اہم حصہ
جمعے کی نماز کا منظر۔ مسلمانوں کے ليے جمعہ اہم دن ہوتا ہے اور جمعے کی نماز کو بھی خصوصی اہميت حاصل ہے۔ اس تصوير ميں بچی بھی دکھائی دے رہی ہے، جو جوتے صاف کر کے روزگار کماتی ہے۔ وہ منتظر ہے کہ نمازی نماز ختم کريں اور اس سے اپنے جوتے صاف کرائيں اور وہ چار پيسے کما سکے۔
تصویر: Bernat Armangue/AP Photo/picture alliance
عام شہری پريشان، طالبان خوش
عام افغان شہری ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہے مگر طالبان اکثر لطف اندوز ہوتے دکھائی ديتے ہيں۔ اس تصوير ميں طالبان ايک اسپيڈ بوٹ ميں سیر کر کے خوش ہو رہے ہيں۔