بلوچستان کے نامناسب حالات اور بڑھتا ہوا گھریلو تشدد
18 جولائی 202118 سالہ زینب آج بہت خوش تھی‘ وہ خوش کیوں نہ ہوتی آج اس کا شریک حیات ان کی پانچ سالہ شادی شدہ زندگی میں پہلی مرتبہ اسے پکنک پر لے جارہا تھا۔ پانچ ماہ کی حاملہ زینب نے اپنے تین سالہ بیٹے کو خوب اچھی طرح سے تیار کیا اور وہ گوادر کے ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ کوہ باطل پر سیر کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔
زینب کا شوہر ثناءاللہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا لیکن زینب کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کم عمر زینب کی شادی جب ثناءاللہ سے کروائی جارہی تھی تو اس وقت سے زینب یہ جانتی تھی کہ ثناءاللہ نشے کا عادی ہے۔ ثناءاللہ کے گھر والوں نے اس کی شادی اسی وجہ سے کروائی تھی کہ شاید وہ سدھر جائے گا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔
نشے کے عادی ثناءاللہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے زینب کو پہاڑ سے دھکا دے دیا اور اسے ادھ مرا جان کر وہاں سے بھاگ گیا۔ سیر کی غرض سے آئے ہوئے لوگوں نے زخموں سے چور زینب کو ہسپتال منتقل کیا۔ یہ سارا منظر زینب اور ثناءاللہ کے معصوم بچے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ گو کہ زینب کی زندگی تو بچ گئی مگر وہ ایک زندہ لاش کی مانند ہے، جس کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہوں سے ٹوٹ چکی ہیں۔
یوں تو غیرت کے نام پر قتل'ونی کے واقعات‘ تیزاب پھینکنے اور جنسی تشدد کے تمام واقعات کا کوئی واضح ریکارڈ ہی موجود نہیں لیکن کورونا کی وباءکے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ذہنی دباﺅ کے علاوہ دیگر کئی ایسے محرکات ہیں، جن کی بناءپر پاکستان بالخصوص بلوچستان میں عورتوں پر کیے جانے والے تشدد کی سطح بلند ہوتی جارہی ہے۔
غربت و معاشی بدحالی
محمد علی بلوچستان کے علاقے آواران سے تعلق رکھتا ہے۔ بیروزگاری اور صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث اپنے چھ بچوں سمیت لسبیلہ کے شہر (حب) منتقل ہو گیا۔ انڈسٹریل زون میں نوکری کی خاطر ہر چھوٹی بڑی فیکٹری اور کارخانوں کا رخ کیا نوکری نہ ملنے کے سبب کسی نے مشورہ دیا کہ چند روزہ تبلیغ پر چلا جائے اپنے چھ بچوں کو ان کی والدہ کے ساتھ بے یار و مددگار چھوڑ کر محمد علی بلوچستان سے پنجاب کی جانب کوچ کر گیا۔
تین ماہ بعد واپسی پر محمد علی کو پتہ چلا کہ اس کی بیوی گھروں میں صفائی کا کام کرتی ہے۔ اس موقع پر اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ قریب پڑی ہوئی اینٹ اس نے اپنی بیوی کے سر پر مار دی۔ کئی ماہ سے سرکاری ہسپتالوں میں رہنے کے بعد محمد علی کی زوجہ چل بسی اور محمد علی خود گڈانی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ڈی ڈبلیو اردو نے محمد علی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا ہر سوال پر ایک ہی جواب ہوتا تھا،'' غربت نے مجھے پہلے اپنے گھر سے ہجرت پر مجبور کیا اور پھر اسی پریشانی میں میں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔‘‘ آج محمد علی کے بچے بھیک مانگ کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال نے جہاں لوگوں سے ان کا روزگار چھین لیا ہے وہیں معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ ذہنی مسائل سے دوچار ہے۔
گھر میں ہی زیادہ خطرہ
2020ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک جگہ ان کا گھر ہوتا ہے۔ عالمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں شادی شدہ خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے واقعات میں غربت ایک اہم وجہ ہے۔
عورت فاﺅنڈیشن بلوچستان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاﺅ الدین خلجی کے مطابق اس سال صرف کوئٹہ میں خواتین پر کیے گئے تشدد اور اموات کی تعداد 22 سے زیادہ ہے۔
اصل تعداد کہیں زیادہ
علاﺅ الدین خلجی نے ڈی ڈبلیو کو بات کرتے ہوئے کہا،''یہ صرف وہ کیسز ہیں جو کہ رپورٹ کیے گئے ہیں۔ کئی کیسز ایسے بھی ہیں، جہاں خاندان والے بدنامی کی وجہ سے واقعات کو منظر عام پر ہی نہیں لاتے۔‘‘
علاﺅ الدین خلجی کے مطابق قبائلی نظام میں یہ بہت عام ہے کہ کس طرح کیسز کو رپورٹ ہونے سے چھپایا جا سکتا ہے،''بعض اوقات جس خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے وہ اس بات سے بھی لاعلم ہوتی ہے کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔‘‘
'ہاتھ اٹھانا خاوند کا حق‘
عورت فاﺅنڈیشن کے علاﺅ الدین خلجی کہتے ہیں،'' ایک مرتبہ کوئٹہ کے ایک مقامی ہسپتال میں کیس اسٹڈی کے لیے ان کا جانا ہوا۔ وہاں ایک نوعمر شادی شدہ خاتون موجود تھی، جس کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ہم نے اس خاتون سے درخواست کی کہ وہ اپنے شوہر کے خلاف کیس رجسٹرڈ کروائے۔ تو اس پر اس خاتون نے ہمیں جواب دیا کہ اس پر ہاتھ اٹھانا اس کے خاوند کا حق ہے۔‘‘
کام آسان نہیں
کلثوم بلوچ ایک مقامی تنظیم ”راجی" کی روح رواں ہیں۔ یہ تنظیم انسانی حقوق خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ کلثوم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہم نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے کوشش کی کہ خواتین پر ہونے والے تشدد، غیرت کے نام پر ہونے والے قتل، خودکشی اور دیگر مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے قبائلی معاشرے میں رہنے والی عورت کو اس کے حقوق سے آگاہی دے سکیں‘‘۔ کلثوم کے مطابق یہ کام آسان نہیں آپ کو اپنے ہی اردگرد رہنے والوں سے اپنی آزادی اور اپنے وجود کو تسلیم کروانے کی ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے اور اکثر معاشرہ آپ کو ”باغی" تصور کرتا ہے۔
نشے کا استعمال
بلوچستان پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں خواتین نے نہ صرف منشیات کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اپنی جدوجہد کو اس قدر آگے بڑھایا کہ بلیدہ جیسے پسماندہ علاقے میں حکومت کو نشے کے عادی افراد کے لیے ادارہ قائم کرنا پڑا۔
گھریلو جھگڑوں اور ناچاقیوں کی اکثر دیگر وجوہات میں شوہر کا نشے کا عادی ہونا ایک اہم وجہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نہ صرف معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانے کے افراد بھی اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
سرکاری نوکری 'بڑی‘ بات
جمیلہ (فرضی نام) کیچ تربت کی رہنے والی ہیں۔ جمیلہ کی شادی ایک سرکاری ملازم سے کرادی گئی تھی، جس نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ جمیلہ کے مطابق اس کا شوہر شادی سے پہلے نشے کا عادی تھا اور یہ بات جمیلہ کے گھر والوں کو شادی سے پہلے ہی معلوم تھی۔ چونکہ سرکاری نوکری رکھنا ایک بڑی بات تھی لہذا جمیلہ کی شادی وہاں کر دی گئی۔
جمیلہ کا خاوند طویل عرصے سے نشے کی لت کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں رہتا ہے۔ وہ جمیلہ پر شک کرتا تھا،مختلف قسم کے الزامات لگاتا تھا اور اپنی بیوی کے 'بے وفا‘ ہونے کے شواہد کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ طرح طرح کے امتحانات لیتا ہے، جس کے ذریعے وہ اس کی وفاداری کو جانچ سکے۔
طلاق بری مگر نشہ نہیں
جمیلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہمارے معاشرے میں طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے۔ نشے کی لت اور اس ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے وہ اس ازدواجی رشتے سے منسلک ہے۔‘‘
ڈاکٹر شعیب کاشانی ایک ماہر نفسیات ہیں اور مکران میڈیکل کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر کاشانی کے مطابق چونکہ بلوچستان میں ہر قسم کا نشہ انتہائی عام اور سستا ہے لہٰذا بڑی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کے ذریعے مختلف قسم کی نشہ آور اشیاء کی اسمگلنگ ایک عام سی بات ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے جرائم اور گھریلو تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خوش قسمتی
نازیہ بلوچ آج جرمنی کے شہر بون میں رہتی ہیں اور مقامی برادری کے لیے کام کرتی ہیں۔ نازیہ کے مطابق وہ خود کو انتہائی خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ آج وہ جرمنی میں ہیں اور ایسی تمام عورتوں کے لیے کام کرتی ہیں، جو کسی نہ کسی طریقے سے گھریلو تشدد کا شکار بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں۔ نازیہ بلوچ کے مطابق ان کا اپنا ماضی بھی اسی قسم کے تشدد سے گھرا رہا ہے۔ ان کے چار بچے ہیں اور روزانہ ہونے والے جسمانی تشدد کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر چکی تھیں۔
نازیہ کے مطابق مغربی خواتین بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن انہیں اپنی پسند ناپسند‘ قانونی طور پر مدد اور معاشرے میں اپنے وجود کو تسلیم کروانے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔
نازیہ بلوچ ہو یا گوادر کی رہنے والی زینب وہ اسے قدرت کا ایک انعام تصور کرتی ہیں کہ وہ آج زندہ ہیں۔زینب کا علاج کراچی میں ہوا اور اس کا شوہر اس وقت گوادر پولیس کی تحویل میں ہے۔ وہ زینب اور اس کے اہل خانہ کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ حوالات سے باہر نکل کر وہ انہیں دیکھ لے گا۔
ان حالات میں ریاستی پالیسی بنانے والوں، میڈیا اور پورے معاشرے کی یہ ایک اہم ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں۔