جرمن صوبے باویریا میں اسلامیات کی تعلیم: فیصلے کے خلاف مقدمہ
8 جولائی 2021
جرمن صوبے باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی باقاعدہ تعلیم متعارف کرانے کے قانون کے خلاف آئینی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اس مضمون کو متعارف کرانے کی آئینی شرائط پوری نہیں کی گئیں۔
اشتہار
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے جمعرات آٹھ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے باویریا میں قائم بینچ میں اس مقدمے کے دائر کیے جانے کی عدالت کی ایک ترجمان نے تصدیق کر دی۔
ترجمان کے مطابق اس آئینی درخواست میں معروف ماہر تعلیم ایرنسٹ گُنٹر کراؤزے، باویریا میں فکری آزادی کی تنظیم، اس کی میونخ میں قائم شاخ اور جوردانو برونو فاؤنڈیشن نامی ادارے کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم متعارف کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی آئین کے تحت وہ شرائط پوری نہیں کی گئیں، جن سب کا ایسے کسی پارلیمانی فیصلے کے دوران پیش نظر رکھا جانا لازمی تھا۔
اسلامیات، ایک اختیاری مضمون
اس مقدمے کے دائر کیے جانے سے صرف ایک روز قبل منگل چھ جولائی کی شام میونخ میں باویریا کی صوبائی پارلیمان نے فیصلہ کیا تھا کہ ریاستی اسکولوں میں اسلامی علوم کی تعلیم کا ایک ایسا اختیاری مضمون متعارف کرایا جانا چاہیے، جس کا طلبا و طالبات اگر چاہیں تو اپنے لیے آزادانہ انتخاب کر سکیں۔
اس پارلیمانی رائے دہی میں اسلامی علوم کی تعلیم کو باویریا کے اسکولوں میں ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر لیکن فی الحال ایک ماڈل کی حیثیت سے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلے کا مقصد صوبے کے تقریباﹰ 350 اسکولوں میں نوجوان طلبا و طالبات، خاص کر مسلمان بچے بچیوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ سماجی علوم میں اخلاقیات کے مضمون کے علاوہ اگر چاہیں تو اپنے لیے اسلامیات کا انتخاب بھی کر سکیں۔
مخالفین کا موقف کیا ہے؟
یہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں سرکاری ملازمین کے طور پر بھرتی کیے گئے اساتذہ کی طرف سے جرمن زبان میں دی جائے گی اور نصاب کی تیاری میں کلیدی اقدار کے لحاظ سے جرمنی کے بنیادی قانون اور باویریا کے آئین کے تقاضوں کا پیش نظر رکھا جانا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون سازی کے خلاف مقدمے میں درخواست دہندگان نے موقف یہ اپنایا ہے کہ اس پارلیمانی فیصلے میں شفافیت اور بنیادی وضاحتوں کی کمی ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی بارے میں جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی طرف سے بھی کہا جا چکا ہے کہ وہ بھی اس صوبائی قانون سازی کے خلاف وفاقی آئینی عدالت میں جائے گی۔
اشتہار
پارلیمانی فیصلہ 'بہت بڑا سنگ میل‘
میونخ میں اس قانون سازی کی جزوی مخالفت کے باوجود باویریا میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کی صوبائی نگران اہلکار گُودرُون برینڈل فشر نے اس پارلیمانی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''نصابی حوالے سے یہ اقدام باویریا میں مسلمان برادری کے مزید بہتر سماجی انضام کی کوششوں میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہو گا۔‘‘
ساتھ ہی برینڈل فشر نے مسلم طلبا و طالبات کے والدین کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
کئی سال سے جاری بحث
باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر متعارف کرانے سے متعلق بحث کئی سال پرانی ہے۔ شروع میں اسے 'اسلامی اقدار سے آگاہی‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ تعلیم ترک زبان میں دی جاتی تھی۔
اب لیکن اسے 'اسلامیات کی تعلیم‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ مضمون بچوں کو جرمن زبان میں پڑھایا جائے گا۔ صوبائی وزارت تعلیم کے مطابق اب تک یہ مضمون ایک ماڈل پروجیکٹ کے تحت باویریا کے 364 پرائمری اور مڈل اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔
مستقبل میں تاہم اسے ہائی اسکولوں میں بھی پڑھایا جا سکے گا اور اس سال موسم خزاں سے باویرین اسکولوں میں بچے اپنے لیے اسلامیات بطور اختیاری مضمون باقاعدہ منتخب کر سکیں گے۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔