1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن صوبے باویریا میں اسلامیات کی تعلیم: فیصلے کے خلاف مقدمہ

8 جولائی 2021

جرمن صوبے باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی باقاعدہ تعلیم متعارف کرانے کے قانون کے خلاف آئینی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اس مضمون کو متعارف کرانے کی آئینی شرائط پوری نہیں کی گئیں۔

Islamunterricht in Bamberg
جرمن شہر بامبرگ میں اسلامیات کی ایک کلاس، خاتون ثیچر چند مہمانوں کے ساتھتصویر: DW/Ammar

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے جمعرات آٹھ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے باویریا میں قائم بینچ میں اس مقدمے کے دائر کیے جانے کی عدالت کی ایک ترجمان نے تصدیق کر دی۔

جرمنی میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں کمی

ترجمان کے مطابق اس آئینی درخواست میں معروف ماہر تعلیم ایرنسٹ گُنٹر کراؤزے، باویریا میں فکری آزادی کی تنظیم، اس کی میونخ میں قائم شاخ اور جوردانو برونو فاؤنڈیشن نامی ادارے کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم متعارف کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی آئین کے تحت وہ شرائط پوری نہیں کی گئیں، جن سب کا ایسے کسی پارلیمانی فیصلے کے دوران پیش نظر رکھا جانا لازمی تھا۔

اسلامیات، ایک اختیاری مضمون

اس مقدمے کے دائر کیے جانے سے صرف ایک روز قبل منگل چھ جولائی کی شام میونخ میں باویریا کی صوبائی پارلیمان نے فیصلہ کیا تھا کہ ریاستی اسکولوں میں اسلامی علوم کی تعلیم کا ایک ایسا اختیاری مضمون متعارف کرایا جانا چاہیے، جس کا طلبا و طالبات اگر چاہیں تو اپنے لیے آزادانہ انتخاب کر سکیں۔

مسلم طلبا و طالبات کے والدین صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں، برینڈل فشرتصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ

اس پارلیمانی رائے دہی میں اسلامی علوم کی تعلیم کو باویریا کے اسکولوں میں ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر لیکن فی الحال ایک ماڈل کی حیثیت سے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلے کا مقصد صوبے کے تقریباﹰ 350 اسکولوں میں نوجوان طلبا و طالبات، خاص کر مسلمان بچے بچیوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ سماجی علوم میں اخلاقیات کے مضمون کے علاوہ اگر چاہیں تو اپنے لیے اسلامیات کا انتخاب بھی کر سکیں۔

مخالفین کا موقف کیا ہے؟

یہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں سرکاری ملازمین کے طور پر بھرتی کیے گئے اساتذہ کی طرف سے جرمن زبان میں دی جائے گی اور نصاب کی تیاری میں کلیدی اقدار کے لحاظ سے جرمنی کے بنیادی قانون اور باویریا کے آئین کے تقاضوں کا پیش نظر رکھا جانا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس قانون سازی کے خلاف مقدمے میں درخواست دہندگان نے موقف یہ اپنایا ہے کہ اس پارلیمانی فیصلے میں شفافیت اور بنیادی وضاحتوں کی کمی ہے۔

جرمنی: کیا لاک ڈاؤن میں رمضان نے مسلمانوں کی زندگی آسان کر دی ہے؟

جرمنی، مسلمانوں کو تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت

اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی بارے میں جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی طرف سے بھی کہا جا چکا ہے کہ وہ بھی اس صوبائی قانون سازی کے خلاف وفاقی آئینی عدالت میں جائے گی۔

پارلیمانی فیصلہ 'بہت بڑا سنگ میل‘

میونخ میں اس قانون سازی کی جزوی مخالفت کے باوجود باویریا میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کی صوبائی نگران اہلکار گُودرُون برینڈل فشر نے اس پارلیمانی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''نصابی حوالے سے یہ اقدام باویریا میں مسلمان برادری کے مزید بہتر سماجی انضام کی کوششوں میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہو گا۔‘‘

جرمنی میں مسلم طلبا و طالبات کو اسلام مخالف مہم کا سامنا

ساتھ ہی برینڈل فشر نے مسلم طلبا و طالبات کے والدین کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

کئی سال سے جاری بحث

باویریا کے اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر متعارف کرانے سے متعلق بحث کئی سال پرانی ہے۔ شروع میں اسے 'اسلامی اقدار سے آگاہی‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ تعلیم ترک زبان میں دی جاتی تھی۔

جرمنی میں مسلمان، دیگر اقلیتیں کیسے ’کونے میں دھکیلی‘ جا رہی ہیں

اب لیکن اسے 'اسلامیات کی تعلیم‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ مضمون بچوں کو جرمن زبان میں پڑھایا جائے گا۔ صوبائی وزارت تعلیم کے مطابق اب تک یہ مضمون ایک ماڈل پروجیکٹ کے تحت باویریا کے 364 پرائمری اور مڈل اسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔

مستقبل میں تاہم اسے ہائی اسکولوں میں بھی پڑھایا جا سکے گا اور اس سال موسم خزاں سے باویرین اسکولوں میں بچے اپنے لیے اسلامیات بطور اختیاری مضمون باقاعدہ منتخب کر سکیں گے۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں