ڈیجیٹل اسپیس اور ضابطہ اخلاق، معلومات کی ذمہ دارانہ ترسیل
سدرہ سعید
17 اکتوبر 2021
ڈیجیٹل میڈیا نئے دور کا اہم ذریعہ ابلاغ ہے، جس میں پیغامات میں الفاظ کے علاوہ مختلف اشکال کی تصاویر، ویڈیوز اور آواز کے ذریعے احساسات کو بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ ایسی پوسٹس انسانی ذہنوں اور رویوں پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔
اشتہار
حالیہ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ ڈیجیٹل اسپیس پر ٹرولنگ ایک نیا مشغلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ کوئی پوسٹ پبلش کرتے وقت اخلاقی طور مختلف ممکنہ طریقوں کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دوسروں کا تمسخر اڑانا، طنز کرنا اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو اخلاقی پسماندگی اور غیر مہذب رویوں کو جنم دے رہے ہیں۔
اشتہار
معلومات ضرور پہنچائیں لیکن ذمہ داری کے ساتھ
وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سب سے پہلے خبر دینے یا معلومات شیئر کرنے کا رجحان بڑھنے کے باعث عام صارفین ایسا مواد بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں، جس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے اخباروں میں کسی مجرمانہ اقدام کی خبر شائع کرتے وقت متاثرہ شخص کے نام کا صرف پہلا حرف لکھا جاتا تھا اور اس کی تصویر نہیں چھاپی جاتی تھی۔ اب لیکن بریکنگ نیوز کی دوڑ میں سوشل میڈیا پر نام کے ساتھ ساتھ پورا بائیو ڈیٹا اور بہت سی غیر مصدقہ معلومات بھی شائع کر دی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اثر و رسوخ رکھنے والوں نے کچھ حیرت انگیز مقامات کو انتہائی ستم ظریفی سے برباد کر دیا ہے۔ ان کے فالورز انہی قدرتی مقامات کا رخ کرتے ہیں اور کوڑا کرکٹ وہاں چھوڑ آتے ہیں۔
تصویر: instagram.com/publiclandshateyou
سُپر بلوم سے بربادی تک
گزشتہ برس غیرمعمولی زیادہ بارشوں کی وجہ سے جنوبی کیلیفورنیا میں رواں برس جنگلی پھولوں کے کارپٹ بچھ گئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے اس علاقے کا رخ کیا۔ بہت سے لوگ ایک اچھی انسٹاگرام تصویر کے لیے نازک پھولوں کو روندتے اور کچلتے چلے گئے۔ جو کچرا وہاں پھینکا گیا، اسے چننے میں بھی ایک عرصہ لگے گا۔
تصویر: Reuters/L. Nicholson
جب کوئی قدرتی مقام مشہور ہو جائے
امریکا کا دریائے کولوراڈو مقامی خاندانوں کے لیے پکنک کی جگہ ہوتا تھا لیکن انسٹاگرام کی وجہ سے یہ امریکا کا سب سے بڑا سیاحتی مقام بنتا جا رہا ہے۔ انسٹاگرام کے آنے کے بعد سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔ ٹریفک کے مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔
تصویر: imago/blickwinkel/E. Teister
غیر ارادی نتائج
جرمنی کے ایک مقامی فوٹوگرافر یوہانس ہولسر نے اس جھیل کی تصویر انسٹاگرام پر اپ لوڈ کی تو اس کے بعد وہاں سیاحوں نے آنا شروع کر دیا۔ ایک حالیہ انٹرویو میں اس فوٹوگرافر کا کہنا تھا جہاں گھاس تھی اب وہاں ایک راستہ بن چکا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے فوجیوں نے مارچ کیا ہو۔ اب وہاں سگریٹ، پلاسٹک بوتلیں اور کوڑا کرکٹ ملتا ہے اور سیاحوں کا رش رہتا ہے۔
آسٹریا کے اس گاؤں کی آبادی صرف سات سو نفوس پر مشتمل ہے لیکن انسٹاگرام پر مشہور ہونے کے بعد یہاں روزانہ تقریبا 80 بسیں سیاحوں کو لے کر پہنچتی ہیں۔ یہاں روزانہ تقریبا دس ہزار سیاح آتے ہیں۔ نتیجہ کوڑے کرکٹ اور قدرتی ماحول کی تباہی کی صورت میں نکل رہا ہے۔
اسپین کا جزیرہ ٹینیریف سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے۔ یہاں قریبی ساحل سے جمع کیے گئے پتھروں سے ہزاروں ٹاور بنائے گئے ہیں۔ یہ تصاویر کے لیے تو اچھے ہیں لیکن ان پتھروں کے نیچے رہنے والے کیڑوں مکڑوں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔
تصویر: Imago Images/McPHOTO/W. Boyungs
قدرتی ماحول میں تبدیلیاں نہ لائیں
پتھروں کی پوزیشن تبدیل کرنے سے زمین کی ساخت اور ماحول بھی تبدیل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال کے شروع میں یہ تمام ٹاور گرا دیے گئے تھے اور ماہرین نے سیاحوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ایسی تبدیلیاں نہ لائیں۔ لیکن اس کے چند ہفتوں بعد ہی سیاحوں نے دوبارہ ایسے ٹاور بنانا شروع کر دیے تھے۔
تصویر: Imago Images/robertharding/N. Farrin
آئس لینڈ کی کوششیں
دس ملین سے زائد تصاویر کے ساتھ آئس لینڈ انسٹاگرام پر بہت مشہور ہو چکا ہے۔ بہترین تصویر لینے کے چکر میں بہت سے سیاح سڑکوں کے علاوہ قدرتی ماحول میں گاڑیاں چلانا اور گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ایسا روکنے کے لیے سیاحوں سے ایئرپورٹ پر ایک معاہدہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ قدرتی ماحول کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/E. Rhodes
شرم کا مقام
ایک نامعلوم انسٹاگرام اکاؤنٹ ’پبلک لینڈ ہیٹس یو‘ انسٹاگرامرز کے غیرذمہ دارانہ رویے کے خلاف کوششوں کا حصہ ہے۔ اس اکاؤنٹ پر ان مشہور انسٹاگرامرز کی تصاویر جاری کی جاتی ہیں، جو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس طرح امریکی نیشنل پارک سروس نے کئی انسٹاگرامر کے خلاف تحقیات کا آغاز کیا۔
تصویر: instagram.com/publiclandshateyou
8 تصاویر1 | 8
سینئر صحافی اور اینکرز بھی کئی بار جلدی میں کسی خبر پر تبصرہ کر دیتے ہیں، کوئی تصویر یا ویڈیو شیئر کر دیتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ تصویر، ویڈیو یا خبر جعلی تھی۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویوں سے وہ عوامی اعتماد سے محروم ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر معلومات شیئر کرنے کے حوالے سے سینئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ہر صحافی کو سوشل میڈیا پر کوئی خبر شیئر کرتے ہوئے چند باتوں کا لازمی خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ جو کچھ پوسٹ کریں، اس کی تردید سامنے نہ آئے۔
عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’خبر کی تصدیق کے لیے دستاویزات ساتھ ہوں تاکہ ساکھ بھی قائم رہے اور اس پر اگر ٹرول بریگیڈ سامنے آئے، تو آپ کم از کم اسے جواب دے سکیں۔ صحافیوں کو تو ویسے بھی بہت ذمہ دار ہونا چاہیے اور سوشل میڈیا پر خاص طور پر زیادہ ذمہ داری کا مظاہر کرنا چاہیے کیونکہ یہ میڈیا اتنا قابل اعتبار نہیں ہے۔‘‘
بنگلہ دیش کا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کرے گا
بنگلہ دیشی حکومت سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری پیراملٹری فورس کو تفویض کرنے کا سوچ رہی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ آزادئ رائے کے منافی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
داغ دار شہرت
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
فیس بک، یوٹیوب اور سکیورٹی
بنگلہ دیش کی حکومت فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی نگرانی پر بارہ ملین یورو یا تقریباً چودہ ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ریپڈ ایکشن بٹالین ریاست مخالف پراپیگنڈے، افواہوں اور اشتعال انگیز مضامین یا بیانات کیا اشاعت کی نگرانی کرے گی۔ نگرانی کا یہ عمل انٹرنیٹ پر دستیاب کمیونیکشن کے تمام ذرائع پر کیا جائے گا۔
تصویر: imago/Future Image
ڈھاکا حکومت پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ
سویڈن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی تسنیم خلیل کا کہنا ہے کہ ریپڈ ایکشن بٹالین کو استعمل کرتے ہوئے ڈھاکا حکومت اپنے مخالفین کو گرفتار یا نظربند کرنے کا پہلے ہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ خلیل نے یورپی یونین اور ایسے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کو ایسا اقدام کرنے سے روکے جو عام شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کے مساوی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
آزادئ صحافت کو محدود کرنے کا نیا قانون
بنگلہ دیشی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا قانون ’ دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے تحت انٹرنیٹ پر ریاست مخالف یا قانونی اختیار کو درہم برہم کرنے یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا نسلی ہم آہنگی کے منافی کوئی بھی بیان شائع کرنے کے جرم پر سات برس تک کی قید سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حکومتی ناقدین کو خاموش کرنے طور پر اس قانون کا استعمال کر سکتی ہے۔
تصویر: government's press department
ذرائع ابلاغ کا احتجاج
پیر پندرہ اکتوبر کو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں اہم اخبارات کے مدیران نے نیشنل پریس کلب کے باہر انسانی زنجیر بنائی۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ ’دی ڈیجیٹل ایکٹ‘ کی مختلف نو شقوں میں ترامیم کی جائیں کیونکہ یہ آزاد صحافت اور آزادئ رائے کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اس مظاہرے کے جواب میں کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
صحافت بھی جاسوسی کا ذریعہ ہو سکتی ہے!
ایک سینیئر ایڈیٹر محفوظ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت اگر کوئی صحافی کسی حکومتی دفتر میں داخل ہو کر معلومات اکھٹی کرتا پایا گیا تو اُسے جاسوسی کے شبے میں چودہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ محفوظ الرحمان کا مزید کہنا ہے کہ یہ نیا قانون سائبر کرائمز کے چیلنج کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ آزاد میڈیا کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائے گا۔
تصویر: bdnews24.com
ناروا سلوک
بنگلہ دیش آزاد صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں 146 ویں پوزیشن پر ہے۔ ڈھاکا حکومت نے عالمی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شاہد العالم کو پسِ زندان رکھا ہوا ہے۔ العالم نے رواں برس اگست میں طلبہ کے پرامن مظاہرے پر طاقت کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور وہ اسی باعث گرفتار کیے گئے۔ اس گرفتاری پر حکومتی ناقدین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
7 تصاویر1 | 7
پرائیویسی کا احترام
پوچھے بنا کسی کی چیز استعمال کرنے کو ہر معاشرے میں غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے افراد سوشل میڈیا پر دوسروں کی شائع کردہ ویڈیوز اور تصاویر کو استعمال کرتے وقت پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خواتین اور بچوں پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے جیسے واقعات کی بھی ویڈیوز پوسٹ کر دی جاتی ہیں جبکہ عام سوشل میڈیا صارفین، یہ سوچے سمجھے بنا کہ کسی مظلوم اور اس کے خاندان پر اس بات کا کیا اثر پڑے گا، ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کر دیتے ہیں۔ نور مقدم قتل کیس اور زینب زیادتی کیس سوشل میڈیا پر ایسے ہی سماجی رویوں کی دو بڑی مثالیں ہیں۔
بائٹس فار آل کے ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ ہارون بلوچ نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سوشل میڈیا نے عوام کو جہاں کئی معاملات میں بااختیار بنایا ہے، وہیں پر عام لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس غلط استعمال میں ایک دوسرے کو گالی دینا، مذہبی یا نسلی بنیادوں پر عوام کو تشدد پر اکسانا، خواتین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا آن لائن تعاقب کرنا اور انہیں ہراساں کرنا بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں ان سب جرائم کے حوالے سے مؤثر قانونی سازی 2016ء میں کی گئی تھی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مقصد جن جرائم کا تدارک تھا، وہ آج بھی معاشرے میں ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں۔ اس قانون کے ذریعے اب زیادہ تر صرف جائز تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
ایرانی سوشل میڈیا پر کئی ایرانی خواتین نے اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کیں، جن میں وہ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: privat
یہ ایرانی خواتین کسی بھی عوامی جگہ پر اپنا حجاب سر سے اتار کر ہوا میں لہرا دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance /abaca
حجاب کے خاتمے کی مہم گزشتہ برس دسمبر سے شدت اختیار کر چکی ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
اس مہم کے ذریعے حکومت سے لازمی حجاب کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے سر ڈھانپنا اور لمبا کوٹ یا عبایا پہننا لازمی ہے۔
تصویر: privat
اس قانون کی خلاف ورزی پر کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہفتوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: privat
ایرانی حکام کے مطابق یہ ’پراپیگنڈا‘ غیر ممالک میں مقیم ایرانیوں نے شروع کیا۔
تصویر: privat
ایران میں ایسی ’بے حجاب‘ خواتین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: privat
صدر روحانی کا کہنا ہے کہ عوام کی طرف سے تنقید نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
تصویر: privat
صدر روحانی نے ایک سرکاری رپورٹ بھی عام کر دی، جس کے حجاب کے قانون کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: privat
اس رپورٹ کے مطابق قریب پچاس فیصد ایرانی عوام لازمی حجاب کے قانون کی حمایت نہیں کرتے۔
تصویر: privat
10 تصاویر1 | 10
حکومتی اداروں کا کردار
ہارون بلوچ کہتے ہیں، ’’میری رائے میں قوانین کی افادیت اپنی جگہ ہو گی، مگر زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ عوام کو سوشل میڈیا کے درست استعمال کے بارے میں آگاہ کرنے میں ہماری حکومتوں کا کردار کتنا مؤثر ہے؟ اس سوال کا جواب ہے، بالکل بھی نہیں۔ عوام بالخصوص نوجوان طبقہ جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے زیادہ جڑا ہوا ہے، اسے آگہی کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں پندرہ سے پینتیس سال تک کی عمر کے لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ انہیں باشعور بنانے میں حکومت اور حکومتی اداروں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے، تاکہ ان پر واضح کیا جا سکے کہ معاشرہ ان سے کس قسم کے تعمیری رویوں کی توقع کرتا ہے۔‘‘
ڈیجیٹل میڈیا پر غیر اخلاقی رویوں اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معاشرے میں سماجی مکالمہ اور تبادلہ خیال بنیادی باتیں ہیں۔ لیکن پاکستان میں عملاﹰ صورت حال کیا ہے، اس بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں، ’’ہمارے ہاں شدت پسند طبقے کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نے بات چیت ہونے ہی نہیں دینا۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ جو اس کی اپنی رائے ہے، بس وہی حتمی ہے۔ پھر جو کوئی بحث کرے، اس پر فتویٰ لگا دیں۔‘‘
جعلی خبروں سے متعلق سخت قوانین والے ایشائی ممالک
کئی ممالک میں جعلی خبروں یا ’فیک نیوز‘ کی گونج کچھ عرصے سے سنی جارہی ہے۔ ناقدین کے خیال میں اس کا مقصد حکومت مخالف رپورٹوں کو دبانا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ جعلی خبروں سے متعلق ایشیائی ممالک میں کیا کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gabbert
ملائیشیا
ملائیشیا کے قانون کے مطابق اگر جعلی خبر سے ملائیشیا کے کسی شہری کو نقصان پہنچتا ہے تو اس خبر پھیلانے والے کو 123,000 ڈالر جرمانہ اور چھ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ سزا خبر رساں اداروں، ڈیجیٹل اشاعت اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبر پھیلانے والوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Scheiber
بھارت
بھارت میں گزشتہ دنوں وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک اعلان کیا گیا تھا جس کے مطابق ایسے صحافیوں کے، جو حکومت کے خلاف جعلی خبر پھیلانے میں ملوث ہوں یا ان پر شبہ ہو، پریس کارڈ کو منسوخ کرتے ہوئے تحقیقات کی جائیں گی ۔صحافتی حلقوں کی جانب سے اس کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا گیا اور شدید مذمت کی گئی جس کے بعد ملکی وزیر اعظم نریندری مودی کے کہنے پر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
سنگا پور
سنگاپور میں ملکی پارلیمانی کمیٹی ’دانستہ طور پر آن لائن جھوٹ پھیلانے‘ کے خلاف اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے۔ آزادی اظہار رائے سے متعلق پہلے سے ہی سخت قوانین کا حامل یہ ملک اب اس حوالے سے مئی کے مہینے میں نئے قوانین معتارف کرائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Sergi Reboredo
فلپائن
اس ملک میں غلط معلومات پھیلانے والے کو 20 سال تک قید کی سزا دیے جانے کا نیا قانون متعارف کروانے کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل فلپائنی صدر ،حکومت مخالف خبر دینے والے اداروں کو بھی جعلی خبر رساں ادارے قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ANN
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں پہلے ہی سائبر سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی سخت قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین کے تحت غلط یا جعلی خبر پھیلانے والوں کو سات برس تک کی سزائے قید دی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ ملکی شاہی خاندان کے خلاف ہتک آمیز بیان یا خبر دینے کے خلاف بھی سخت قوانین موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media
پاکستان
پاکستان میں ’سائبر کرائم ایکٹ‘ سن 2016 میں منظور کیا گیا جس کے مطابق نفرت انگیز مواد، اسلام یا مذہبی شخصیات کی ہتک پر مبنی مواد، خواتین کے وقار کے منافی مواد کی نشر و اشاعت کے علاوہ دشت گردی یا اس کی سازش پھیلانے والوں کو بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔