ترکی میں ایردوآن کی افراط زر کی بہت اونچی شرح کے خلاف جنگ
21 دسمبر 2021
ترکی کو اپنے ہاں صرف اقتصادی صورت حال میں ابتری ہی کا سامنا نہیں بلکہ اشیائے صرف کی قیمتیں بھی مسلسل بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ صدر ایردوآن کے لیے ملک میں افراط زر کی بہت اونچی شرح سیاسی طور پر بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔
اشتہار
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں اب تک جو بہت زیادہ کمی ہوئی، اس کے خلاف انقرہ حکومت تاحال کئی اقدامات کا اعلان کر چکی ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا ہے کہ حکومت عام شہریوں کی طرف سے بچائی گئی رقوم کی حفاظت بھی کرنا چاہتی ہے اور ترک لیرا کی قدر میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کا سدباب بھی۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ کہ وہی ترک لیرا جو اسی ہفتے امریکی ڈالر اور یورو کے خلاف اپنی قدر میں ریکارڈ حد تک کمی کا سامنا کر چکا تھا، ان دونوں بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اپنی شرح تبادلہ کو دوبارہ 25 فیصد تک بہتر بنانے میں کامیاب رہا۔
عوامی بچتی رقوم کا تحفظ
صدر ایردوآن نے اپنی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ مستقبل میں ترک عوام کی طرف سے بچتی رقوم کے طور پر بینکوں میں جمع کردہ مالی اثاثوں کی بہتر حفاظت کی جائے گی۔ رجب طیب ایردوآن کے مطابق ترک شہریوں نے اپنی جو رقوم بینکوں میں جمع کرا رکھی ہیں اور جن پر متعلقہ بینکوں نے طے شدہ شرح سے منافع کے وعدے بھی کر رکھے ہیں، اگر لیرا کی قدر میں کمی کی شرح اس منافع سے کم رہی، تو ایسے شہریوں کو ہونے والے مالیاتی نقصان کی تلافی بھی کی جائے گی۔
صدر ایردوآن نے کہا، ''اب ترک شہریوں میں سے کسی کو بھی اپنی مالی بچت کو لیرا کے بجائے کسی غیر ملکی کرنسی میں بدلوانا نہیں پڑے گا، صرف اس خوف کے باعث کہ اسے سود کے طور پر مالی منافع کی نسبت لیرا کی قدر میں کمی کے باعث نقصان زیادہ ہو گا۔‘‘
اشتہار
صدارتی اعلان کا فوری مثبت نتیجہ
صدر ایردوآن نے ملکی معیشت اور کرنسی کی قدر و قیمت میں اتار چڑھاؤ سے متعلق جو بیان دیا، اس سے چند ہی گھنٹے پہلے تک ملکی مالیاتی منڈیوں کو رواں ہفتے کے دوران مسلسل دوسرے روز بھی انتہائی غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا تھا۔ اس دوران ایک امریکی ڈالر کی قیمت پہلی بار 18 ترک لیرا سے بھی زیادہ ہو گئی تھی جبکہ ایک یورو بھی اپنی قدر میں 20 لیرا سے زیادہ تک ہو گیا تھا۔
رجب طیب ایردوآن کے اعلان اور عوامی بچتی رقوم کے تحفظ کے عزم کے اظہار کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی ڈالر اور یورپی مشترکی کرنسی یورو کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں تقریباﹰ ایک چوتھائی کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ منگل کی سہ پہر تک اپنی قدر میں دوبارہ بہت زیادہ بہتری کے ساتھ ترک کرنسی ایک بار پھر اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ ایک امریکی ڈالر 13.27 لیرا اور ایک یورو 14.97 لیرا کے برابر ہو چکا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کی یادگار، ترکی کا تاریخی گرینڈ بازار
ترکی کے شہر استنبول میں واقع تاریخی گرینڈ بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد سن چودہ سو پچپن میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں رکھی گئی۔ گرینڈ بازار میں اکسٹھ گلیاں اورسینکڑوں دکانیں ہیں-
تصویر: DW/S. Raheem
اکسٹھ گلیاں، تین ہزار دکانیں
تین ہزار سے زائد مخلتف اشیاء کی دوکانوں والے اس صدیوں پرانے خریدو فروخت کے مرکز کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے کم وبیش ہر طرح کی اشیاء خریدوفروخت کے لیے موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
صدیوں سے چلتا کاروبار
یہاں پر چمڑے اور سلک کے ملبوسات تیار کرنیوالوں، جوتا سازوں، صّرافوں، ظروف سازوں، قالین بافوں، گھڑی سازوں، آلات موسیقی اور کامدار شیشے سے خوبصورت لیمپ تیار کرنیوالوں کی صدیوں سے چلی آ رہی دوکانیں بازار کی تاریخی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
زلزلے سے نقصان
گرینڈ بازار کو اپنے قیام کے بعد مختلف ادوار میں شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی میں آنے والے زلزلے نے اس بازار کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ لیکن منتظمین نے بڑی حد تک اسے اپنی اصل شکل میں برقرار رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
تین لاکھ خریدار روزانہ
ایک اندازاے کے مطابق روزانہ اڑھائی سے تین لاکھ افراد گرینڈ بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں مقامی افراد کے علاوہ بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کی بھی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
فانوس و چراغ
خوبصورت نقش و نگار والے فانوسوں اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں والے دیدہ زیب لیمپوں کی دکانیں اس تاریخی بازار کی الف لیلوی فضا کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کی سوغاتیں
بازار میں خریدار خاص طور پر ترکی کی سوغاتیں خریدنے آتے ہیں۔ ان میں انواع واقسام کی مٹھائیاں اور مصالحہ جات شامل ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پانی کے نلکے
صدیوں پرانے اس بازار کی ایک قابل ذکر بات یہاں پر اس دور میں مہیا کی جانےوالی سہولیا ت ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں یہاں لگائے گئے پانی کے نل ہیں جن سے آج بھی یہاں آنے والے اپنی پیاس بجھا ر ہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
اکیس دروازے
بازار میں داخلے اور اخراج کے لئے مختلف اطراف میں اکیس دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کو مختلف نا م دیے گئےہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خواتین کے پرس
بازار میں خواتین کے دستی پرس یا ہینڈ بیگز سے لدی دوکانوں کی بھی کمی نہیں۔ یہاں پر اصل اور مصنوعی چمڑے اور مقامی کشیدہ کاری کے ڈیزائنوں سے مزین بیگ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بین الاقوامی برانڈز کی نقول بھی باآسانی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
سونے کے زیورات بھی
طلائی زیورات اورقیمتی پتھروں کے شوقین مرد وخواتین کے ذوق کی تسکین کے لئے بھی گرینڈ بازار میں متعدد دوکانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خوش اخلاق دوکاندار
اس بازار کی ایک اور خاص بات یہاں کے دوکانداروں کا مختلف زبانوں میں گاہکوں سے گفتگو کرنا ہے۔ بازار میں گھومتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے دوکاندار گاہکوں کے ساتھ انگلش، عربی ، جرمن ، اردو اور ہندی زبانوں میں گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرم شالیں
مقامی ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار کی گئی گرم شالیں بھی یہاں خریداری کے لئے آنے والوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
بھاؤ تاؤ بھی چلتا ہے
گرینڈ بازار میں آنے والے گاہک دوکانداروں سے بھاؤ تاؤ کر کے قیمت کم کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
دیدہ زیب سجاوٹ
ترکی کے مخلتف علاقوں میں تیار کیے جانے والے آرائشی سامان کو یہاں اتنے خوشنما طریقے سے سجایا جاتا ہے کہ قریب سے گزرنے والے ایک نظر دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
تصویر: DW/S. Raheem
شیشے کی دوکانیں
گرینڈ بازار میں ترک اور عرب نوجوانوں میں مقبول شیشے کی دوکانیں بھی ہیں جہاں مخلتف رنگوں کے شیشے اور ان میں استعمال ہونیوالا تمباکو بھی مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
15 تصاویر1 | 15
لیرا کے مسلسل دباؤ میں رہنے کا سبب
ترک کرنسی لیرا کو حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں اپنی شرح تبادلہ کے لحاظ سے جس مسلسل دباؤ کا سامنا رہا، اس کی سب سے بڑی وجہ ترک مرکزی بینک کے قابل اعتماد ہونے میں ہونے والی متواتر کمی بنی۔ صدر ایردوآن ماضی قریب میں ملکی مرکزی بینک کے کئی سربراہان برطرف کر چکے ہیں۔ اس ریاستی مالیاتی ادارے کی طرف سے اس سال موسم گرما کے اواخر سے سود کی مرکزی شرح میں کمی کی جاتی رہی تھی، حالانکہ اس دوران ملک میں افراط زر کی شرح بڑھتی بڑھتی 21 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
کئی ماہرین کے مطابق صدر ایردوآن کی طرف سے ترک مرکزی بینک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ وہ اس بینک سے متواتر مطالبے کرتے رہے ہیں کہ وہ مرکزی شرح سود کو ہر حال میں کم ہی کرتا جائے۔ اکثر مالیاتی ماہرین اس صدارتی دباؤ اور ایسے مطالبات کے خلاف تھے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ صدر ایردوآن نے مرکزی بینک کی کونسل کے کئی ایسے ارکان کو ہی برطرف کر دیا، جو ان کی مالیاتی سیاست سے اختلاف رکھتے تھے۔
اس دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لیرا کی قدر کم ہوتے جانے سے ملک میں مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہی ہوتی گئی۔ اسی لیے کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ایردوآن کی موجودہ مالیاتی پالیسیاں ان کے لیے آئندہ سیاسی طور پر بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔
م م / ع ب (ڈی پی اے، روئٹرز)
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔