نو منتخب جرمن پارلیمان میں 83 ارکان تارکین وطن کے گھرانوں سے
30 ستمبر 2021
جرمنی میں حالیہ قومی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی نئی 735 رکنی وفاقی پارلیمان پہلے سے کہیں زیادہ متنوع ہے۔ نئی بنڈس ٹاگ میں کم از کم 83 یا 11.3 فیصد ارکان کا تعلق تارکین وطن کے گھرانوں سے ہے۔
اشتہار
اتوار 26 ستمبر کو ہونے والے وفاقی جرمن الیکشن کے نتیجے میں جو نئی بنڈس ٹاگ وجود میں آئی ہے، اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 735 بنتی ہے، جو اپنے حجم کے لحاظ سے کافی بڑی پارلیمنٹ ہے۔ 2017ء میں ہونے والے قومی انتخابات کے بعد جو گزشتہ پارلیمنٹ وجود میں ؤئی تھی، اس میں تارکین وطن کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی شرح 8.2 فیصد بنتی تھی۔
نئی جرمن پارلیمان اب پہلے کے مقابلے میں نسلی، لسانی اور ثقافتی حوالوں سے اس لیے کہیں زیادہ متنوع ہے کہ اس میں ایسے سیاست دانوں کی تعداد، جن کا تعلق بیرون ملک سے ترک وطن کر کے جرمنی میں آباد ہونے والے افراد یا گھرانوں سے ہے، بڑھ کر اب کم از کم 11.3 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی کہ نئی بنڈس ٹاگ کے 735 میں سے کم از کم 83 ارکان ایسے ہیں، جن کے والدین یا ان میں سے کسی ایک کا تعلق آبائی طور پر جرمنی سے نہیں تھا۔
نسلی طور پر کیمرون سے تعلق رکھنے والےآرمانڈ سورن
آرمانڈ سورن کا تعلق جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے ہے اور وہ پہلی مرتبہ بنڈس ٹاگ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے رویے میں عاجزی اور احساس ذمہ داری دونوں ہی نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ بہت بڑی ذمے داری ہے اور جس کو بھی یہ سونپی جائے، اسے اس کی اہمیت اور نوعیت کا پورا احساس ہونا چاہیے۔‘‘
جرمن الیکشن: مسرت، مایوسی، بے چینی
حالیہ جرمن الیکشن کے نتائج کو حیران کن اور شاندار قرار دیا گیا ہے۔۔ اس الیکشن کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر میں گہما گہمی اور نتائج کے وقت مسرت اور مایوسی کا اندازہ درج ذیل تصاویر سے لگایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Maja Hitij/Getty Images
ایس پی ڈی کی شادمانی
برلن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹر وِلی برانٹ ہاؤس میں انتخابی نتائج کے اعلان پر بڑی گہما گہمی پیدا ہوئی۔ ابھی تک یہ پارٹی الیکشن میں پچیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کو پارٹی میں بہاریہ تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اگلے جرمن چانسلر کا تعلق ایس پی ڈی سے ہوتا ہے۔
تصویر: Maja Hitij/Getty Images
شولس حکومت کے خواہاں
الیکشن کے نتائج سامنے آنے پر ایس پی ڈی کے چانسلر کے امیدوار اولاف شولس اس تاثر میں مبتلا ہیں کہ وہ اس منصب کے اہل ہیں۔ شولس کا کہنا ہے کہ لوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور الیکشن کے نتائج سے ان کی یہ خواہش واضح ہے۔
تصویر: Lisa Leutner/AP/picture alliance
سی ڈی یو میں افسوس کی کیفیت میں
الیکشن 2021 کے ابتدائی نتائج کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے لیے صدمے سے کم نہیں۔ سی ڈی یو اور اس کی حلیف کرسچین سوشل یونین کے لیے یہ نتائج انتہائی مایوس کن رہے۔ ان کے اشتراک کے بعد سے یہ سب سے خراب انتخابی نتیجہ تھا۔ ان دونوں پارٹیوں نے مشترکہ طور پر پچیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ سن 2017 کے مقابلے میں حاصل کردہ ووٹوں میں یہ کمی آٹھ فیصد کے قریب ہے۔
تصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images
شکست سے دوچار امیدوار
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے چانسلر کے امیدوار آرمین لاشیٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن میں پارٹی کی کمزور حیثیت نے ایک غیرمعمولی سیاسی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونین کے لیے ووٹ حقیقت میں بائیں بازو کی قیادت میں بننے والی ممکنہ وفاقی حکومت کے بھی خلاف ہے اور اس تناظر میں وہ حکومت تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
تصویر: Fabrizio Bensch/REUTERS
گرین پارٹی میں پرجوش ماحول
گرین پارٹی کے صدر دفتر میں سینئر سیاستدان ریناٹے کیوناسٹ بھی انتخابی نتائج کے بعد لوگوں کے ساتھ ہاتھ ہلاتی دکھائی دیں۔ پارٹی کے صدر دفتر میں ماحول دوست سیاستدانوں اور ان کے حامیوں میں بہت جوش پایا گیا۔ الیکشن میں گرین کو پندرہ فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں۔ یہ اس پارٹی کو اب تک ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ اس پارٹی کے بغیر مخلوط حکومت کی تشکیل قریب ناممکن ہو گی۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ایف ڈی پی بھی خوش لیکن زیادہ نہیں
فری ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابی نتائج پر ملا جلا لیکن مسرت کا حامل تاثر دیا ہے۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ بظاہر اس کے ووٹ کم و بیش سابقہ الیکشن کے مساوی ہیں۔ گرین پارٹی کی طرح ایف ڈی پی بھی حکومت سازی میں نہایت اہم ہے۔ یہ سی ڈی یو یا ایس پی ڈی کے ساتھ مخلوط حکومتی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے۔
تصویر: Sebastian Kahnert/dpa/picture alliance
لیفٹ پارٹی میں مایوسی
انتخابی نتائج سے لیفٹ پارٹی پر اداسی طاری ہے۔ پارٹی کی سربراہ سوزانے ہیننگ ویلزو کا کہنا ہے کہ نتیجہ پارٹی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ پارٹی محض پانچ فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔ جرمن پارلیمنٹ میں نشست کے لیے پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنا لازم ہوتا ہے۔
تصویر: Cathrin Mueller/REUTERS
اے ایف ڈی کے لیے بھی مایوس کن نتیجہ
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے نائب سربراہ بیٹرکس فون اشٹورخ نے انتخابی نتیجے کو مایوس کن قرار دیا۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے جو سابقہ الیکشن سے کم ہیں۔ سن 2017 میں اے ایف ڈی کو 12.6 فیصد ووٹ ملے تھے۔ سابقہ پارلیمان میں یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی۔ دوسری جانب پارٹی کی شریک لیڈر ٹینو شروپالا نے نتائج کو مستحکم خیال کیا ہے۔
تصویر: Ronny Hartmann/AFP/Getty Images
اے ایف ڈی پارٹی کے خلاف احتجاج
انتخابی نتیجے کے اعلان کے بعد انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعٹ آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے خلاف لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ پارٹی کی قیادت جہاں اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑی تھی وہاں باہر لوگ احتجاجی بینرز لیے کھڑے تھے، ایک بینر پر لکھا تھا کہ ’فاشسٹوں کی کوئی سیاسی جماعت نہیں‘۔
تصویر: Julian Stratenschulte/dpa/picture alliance
پولنگ میں تاخیر
جرمن دارالحکومت میں لوگوں کے جذبات کی وجہ سے افراتفری بھی دیکھی گئی۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر لوگ آخری وقت پر بھی ووٹ ڈالنے کے منتظر تھے۔ بیلٹ پیپرز کی کمیابی بھی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ برلن میراتھن کی وجہ سے بھی سڑکیں بند تھیں اور لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے میں دقت کا سامنا کرنا پرا۔ بعض ووٹرز کو ایک گھنٹے سے زائد ووٹ ڈالنے کی خاطر قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔
آرمانڈ سورن کیمرون میں پیدا ہوئے تھے اور وہ 12 برس کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ اب ان کا شمار جرمنی کے وفاقی قانون ساز ادارے کے ان نئے ارکان میں ہوتا ہے، جن کی وجہ سے یہ مقننہ اب کئی حوالوں سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ متنوع ہو گئی ہے۔ سورن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی کل ہی ہماری پارٹی کے نو منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمانی حزب کا پہلا اجلاس ہوا۔ مجھے اس حزب کی کثیرالنسلی اور کثیرالثقافتی لیکن بہت متنوع نوعیت دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘
تارکین وطن کے پس منظر کا حامل کسے کہتے ہیں؟
جرمن پارلیمان کو جرمن معاشرے اور تمام سماجی گروپوں کا نمائندہ ہونا چاہیے اور ایسا ہے بھی۔ بنڈس ٹاگ کا رکن منتخب ہونے یا اس پارلیمنٹ کے لیے ہونے والے الیکشن میں ووٹ دینے کا اہل ہونے کے لیے کسی بھی مرد یا خاتون کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد ایسے شہریوں کو کہا جاتا ہے، جو خود پیدائشی طور پر جرمن شہری نہیں تھے اور انہوں نے بعد میں ایسا کیا یا جن کے والدین میں سے کم از کم ایک پیدائشی طور پر جرمن شہری نہیں تھا۔
جرمن انتخابات: ممکنہ حکومتی اتحاد
عوامی رائے عامہ کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ جرمن انتخابات میں دو پارٹیوں کا اتحاد اکثریتی ووٹ حاصل نہیں کر سکے گا۔ ایسے میں تین سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کی کئی آپشنز ممکن ہو سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Hörhager
جرمن سیاسی جماعتوں کے رنگ ان کی علامت
کرسچئن ڈیموکریٹک پارٹی اوراس کی روایتی اتحادی جماعت سی ایس یو کو سیاہ رنگ سے جانا جاتا ہے۔ سینٹر لیفٹ سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹ یا اس پی ڈی کو سرخ رنگ سے جانا جاتا ہے۔ آزاد مارکیٹ کی حامی جماعت فری ڈیموکریٹ یا ایف ڈی پی کو پیلے رنگ سے اور ملک کی گرین پارٹی کو ہرے رنگ سے جانا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/photocrew
سیاہ، سرخ، اور ہرا تحاد
سینٹر رائٹ تصور کی جانے والی سیاسی جماعت کرسچئن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اکثر ریاستی اور وفاقی سطح پر چھوٹی سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحاد قائم کرتی ہے۔ سی ڈی یو کے حلقوں میں اس اتحاد میں گرین پارٹی کو شامل کرنا کافی پرکشش ہے۔ لیکن گرین پارٹی اور ایف ڈی پی ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ سابقہ انتخابات کے بعد ایسا اتحاد بننے میں ناکام ہو گیا تھا۔
تصویر: Fotolia/aaastocks
سیاہ، پیلااور ہرا اتحاد
سی ڈی یو، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی، ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد سے زیادہ ہیں۔ ایسے اتحاد کو جرمن بزنس کمیونٹی پسند کرے گی۔ لیکن اگر ایس پی ڈی زیادہ ووٹ لیتی ہے تو وہ حکومتی اتحاد میں بھاری پوزیشن رکھے گی اور اپنی پالیسیوں کو نافذ کرانے کی کوشش کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
سیاہ، ہرا اور پیلا اتحاد
سی ڈی یو، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی، ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد سے زیادہ ہیں۔ ایسے اتحاد کو جرمن بزنس کمیونٹی پسند کرے گی۔ لیکن اگر ایس پی ڈی زیادہ ووٹ لیتی ہے تو وہ حکومتی اتحاد میں بھاری پوزیشن رکھے گی اور اپنی پالیسیوں کو نافذ کرانے کی کوشش کرے گی۔
تصویر: imago/blickwinkel/McPhoto/K. Steinkamp
سرخ، سرخ اور ہرا اتحاد
سوشل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی اور لیفٹ پارٹی، ایک ایسا اتحاد، جو قدامت پسند جماعتیں تب پیش کرتی ہیں جب عوامی رائے ان کے خلاف ہو۔ اگر لیفٹ پارٹی پارلیمان میں پانچ فیصد سیٹیں جیتنے کی حد پار کر لیتی ہے تو ایسا اتحاد قائم ہونے کے امکانات پچاس فیصد ہیں۔ لیکن ایس پی ڈی اور لیفٹ پارٹی کے تاریخی تعلقات اچھے نہیں۔ لیفٹ پارٹی کے امور خارجہ کے حوالے سے انتہا پسندانہ سوچ اس اتحاد کے قیام کو مشکل بنا سکتی ہے۔
تصویر: Imago/C. Ohde
ہرا، پیلا اور گرین اتحاد
ملک کے اقتصادی نظام میں حکومت کی بہت کم دخل اندازی یا فری مارکیٹ کی حامی سیاسی جماعت ایف ڈی پی ماضی میں سوشل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کو مسترد کرتی رہی ہے۔ لیکن اس سال ایف ڈی پی اس ممکنہ حکومتی اتحاد کو رد نہیں کر رہی۔ جرمنی کی 'کنگ میکر' کہلائی جانے والی یہ سیاسی جماعت طاقت میں آنے کے لیے بے چین ہے۔ رینا گولڈ برگ، بج، اا
تصویر: picture alliance/dpa/J.Büttner
6 تصاویر1 | 6
سیاسی اور پارلیمانی تنوع کے لحاظ سے بڑی پیش رفت
جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور ان کے سماجی انضمام سے متعلق وفاقی کونسل کی ناظم الامور ڈینیس نرگس کے مطابق چند روز قبل ہونے والے فیڈرل الیکشن کے نتیجے میں جو بہت زیادہ نسلی تنوع دیکھنے میں آیا ہے، وہ بہت مثبت اور بڑی پیش رفت ہے۔
ڈینیس نرگس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''یہ بھی بہت مثبت تبدیلی ہے کہ خود تارکین وطن کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں میں بھی بڑا تنوع دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ نئی بنڈس ٹاگ میں اب افریقی نژاد جرمن مرد اور خواتین شہریوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ نو منتخب ارکان پارلیمان میں ترک نژاد جرمن سیاست دانوں کی تعداد بھی پہلے سے کافی زیادہ ہو گئی ہے اور یہ اضافہ صنفی سطح پر مردوں اور خواتین دونوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی سیاسی جاعتوں میں کھلا پن زیادہ
حالیہ جرمن الیکشن کے نتائج کی رو سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ جرمن سیاسی جماعتوں میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل سیاست دانوں کو اپنے امیدوار بنانے کا رجحان قدامت پسند یونین جماعتوں میں کم اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹیوں میں زیادہ ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
مثال کے طور پر بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت دی لِنکے کے گزشتہ ارکان پارلیمان میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد کا تناسب مقابلتاﹰ سب سے زیادہ تھا، جو 28.2 فیصد بنتا تھا۔ اس کے برعکس چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو کے منتخب اراکین پارلیمان میں مائیگریشن بیک گراؤنڈ والے کامیاب سیاست دانوں کا تناسب سب سے کم ہے، جو محض 4.6 فیصد بنتا ہے۔
اشتہار
بہت سی رکاوٹیں ابھی باقی ہیں
حالیہ جرمن الیکشن میں امیدواروں میں نسلی تنوع کے لحاظ سے اس مرتبہ جو زیادہ مثبت اور بھرپور پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، اس پر اظہار اطمینان اپنی جگہ، لیکن اسی حوالے سے سیاسی اور معاشرتی سطحوں پر کئی دیگر رکاوٹیں ابھی باقی ہیں، جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
یہ امر اس ایک مثال سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ تارکین وطن کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک انتخابی امیدوار طارق کو ان کی انتخابی مہم کے دوران اس حد تک نسل پرستانہ نفرت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنی امیدواری سے ہی دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
اس بارے میں جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور ان کے سماجی انضمام سے متعلق وفاقی کونسل کی ناظم الامور ڈینیس نرگس کہتی ہیں کہ مائیگریشن بیک گراؤنڈ والے جو امیدوار اپنی انتخابی امیدواری سے دستبردار ہو جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں پایا جانے والا خوف بھی قابل فہم ہے۔
ڈینیس نرگس کے مطابق، ''جرمن سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ایک نئے عملی شعور کی بیداری کا نظر آنا ابھی باقی ہے کہ نسل پرستی کو کسی بھی شہری کی سیاسی ترجیحات، مصروفیات اور اس کے سیاسی کردار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
لیزا ہینَل (م م / ا ا)
جرمن الیکشن میں پاکستانی نژاد خاتون امیدوار، مصباح خان