1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نو منتخب جرمن پارلیمان میں 83 ارکان تارکین وطن کے گھرانوں سے

30 ستمبر 2021

جرمنی میں حالیہ قومی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی نئی 735 رکنی وفاقی پارلیمان پہلے سے کہیں زیادہ متنوع ہے۔ نئی بنڈس ٹاگ میں کم از کم 83 یا 11.3 فیصد ارکان کا تعلق تارکین وطن کے گھرانوں سے ہے۔

ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے تینتیس سالہ رکن پارلیمان آرمانڈ سورن جو بارہ برس کی عمر میں کیمرون سے اپنے خاندان کے ہمراہ جرمنی منتقل ہوئے تھےتصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture-alliance

اتوار 26 ستمبر کو ہونے والے وفاقی جرمن الیکشن کے نتیجے میں جو نئی بنڈس ٹاگ وجود میں آئی ہے، اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 735 بنتی ہے، جو اپنے حجم کے لحاظ سے کافی بڑی پارلیمنٹ ہے۔ 2017ء میں ہونے والے قومی انتخابات کے بعد جو گزشتہ پارلیمنٹ وجود میں ؤئی تھی، اس میں تارکین وطن کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی شرح 8.2 فیصد بنتی تھی۔

دو خواجہ سرا خواتین بھی وفاقی جرمن پارلیمان میں پہنچ گئیں

نئی جرمن پارلیمان اب پہلے کے مقابلے میں نسلی، لسانی اور ثقافتی حوالوں سے اس لیے کہیں زیادہ متنوع ہے کہ اس میں ایسے سیاست دانوں کی تعداد، جن کا تعلق بیرون ملک سے ترک وطن کر کے جرمنی میں آباد ہونے والے افراد یا گھرانوں سے ہے، بڑھ کر اب کم از کم 11.3 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی کہ نئی بنڈس ٹاگ کے 735 میں سے کم از کم 83 ارکان ایسے ہیں، جن کے والدین یا ان میں سے کسی ایک کا تعلق آبائی طور پر جرمنی سے نہیں تھا۔

نسلی طور پر کیمرون سے تعلق رکھنے والےآرمانڈ سورن

آرمانڈ سورن کا تعلق جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے ہے اور وہ پہلی مرتبہ بنڈس ٹاگ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے رویے میں عاجزی اور احساس ذمہ داری دونوں ہی نمایاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ بہت بڑی ذمے داری ہے اور جس کو بھی یہ سونپی جائے، اسے اس کی اہمیت اور نوعیت کا پورا احساس ہونا چاہیے۔‘‘

آرمانڈ سورن کیمرون میں پیدا ہوئے تھے اور وہ 12 برس کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ اب ان کا شمار جرمنی کے وفاقی قانون ساز ادارے کے ان نئے ارکان میں ہوتا ہے، جن کی وجہ سے یہ مقننہ اب کئی حوالوں سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ متنوع ہو گئی ہے۔ سورن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی کل ہی ہماری پارٹی کے نو منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمانی حزب کا پہلا اجلاس ہوا۔ مجھے اس حزب کی کثیرالنسلی اور کثیرالثقافتی لیکن بہت متنوع نوعیت دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘

تارکین وطن کے پس منظر کا حامل کسے کہتے ہیں؟

جرمن پارلیمان کو جرمن معاشرے اور تمام سماجی گروپوں کا نمائندہ ہونا چاہیے اور ایسا ہے بھی۔ بنڈس ٹاگ کا رکن منتخب ہونے یا اس پارلیمنٹ کے لیے ہونے والے الیکشن میں ووٹ دینے کا اہل ہونے کے لیے کسی بھی مرد یا خاتون کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔

جرمن الیکشن: سوشل ڈیموکریٹس کو مختصر برتری حاصل، سی ڈی یو کی بدترین کارکردگی

جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد ایسے شہریوں کو کہا جاتا ہے، جو خود پیدائشی طور پر جرمن شہری نہیں تھے اور انہوں نے بعد میں ایسا کیا یا جن کے والدین میں سے کم از کم ایک پیدائشی طور پر جرمن شہری نہیں تھا۔

سیاسی اور پارلیمانی تنوع کے لحاظ سے بڑی پیش رفت

جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور ان کے سماجی انضمام سے متعلق وفاقی کونسل کی ناظم الامور ڈینیس نرگس کے مطابق چند روز قبل ہونے والے فیڈرل الیکشن کے نتیجے میں جو بہت زیادہ نسلی تنوع دیکھنے میں آیا ہے، وہ بہت مثبت اور بڑی پیش رفت ہے۔

جرمن الیکشن، میرکل کی پارٹی کی بدترین کارکردگی

ڈینیس نرگس نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''یہ بھی بہت مثبت تبدیلی ہے کہ خود تارکین وطن کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں میں بھی بڑا تنوع دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ نئی بنڈس ٹاگ میں اب افریقی نژاد جرمن مرد اور خواتین شہریوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ نو منتخب ارکان پارلیمان میں ترک نژاد جرمن سیاست دانوں کی تعداد بھی پہلے سے کافی زیادہ ہو گئی ہے اور یہ اضافہ صنفی سطح پر مردوں اور خواتین دونوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘

بائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی سیاسی جاعتوں میں کھلا پن زیادہ

حالیہ جرمن الیکشن کے نتائج کی رو سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ جرمن سیاسی جماعتوں میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل سیاست دانوں کو اپنے امیدوار بنانے کا رجحان قدامت پسند یونین جماعتوں میں کم اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹیوں میں زیادہ ہے۔

جرمن چانسلر کے رنگ برنگے مداح

مثال کے طور پر بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت دی لِنکے کے گزشتہ ارکان پارلیمان میں تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد کا تناسب مقابلتاﹰ سب سے زیادہ تھا، جو 28.2 فیصد بنتا تھا۔ اس کے برعکس چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال پارٹی کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو کے منتخب اراکین پارلیمان میں مائیگریشن بیک گراؤنڈ والے کامیاب سیاست دانوں کا تناسب سب سے کم ہے، جو محض 4.6 فیصد بنتا ہے۔

بہت سی رکاوٹیں ابھی باقی ہیں

حالیہ جرمن الیکشن میں امیدواروں میں نسلی تنوع کے لحاظ سے اس مرتبہ جو زیادہ مثبت اور بھرپور پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، اس پر اظہار اطمینان اپنی جگہ، لیکن اسی حوالے سے سیاسی اور معاشرتی سطحوں پر کئی دیگر رکاوٹیں ابھی باقی ہیں، جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔

یہ امر اس ایک مثال سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ تارکین وطن کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک انتخابی امیدوار طارق کو ان کی انتخابی مہم کے دوران اس حد تک نسل پرستانہ نفرت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنی امیدواری سے ہی دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

جرمنی کی روزگار کی منڈی کو سالانہ چار لاکھ تارکین وطن درکار

اس بارے میں جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور ان کے سماجی انضمام سے متعلق وفاقی کونسل کی ناظم الامور ڈینیس نرگس کہتی ہیں کہ مائیگریشن بیک گراؤنڈ والے جو امیدوار اپنی انتخابی امیدواری سے دستبردار ہو جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں پایا جانے والا خوف بھی قابل فہم ہے۔

ڈینیس نرگس کے مطابق، ''جرمن سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ایک نئے عملی شعور کی بیداری کا نظر آنا ابھی باقی ہے کہ نسل پرستی کو کسی بھی شہری کی سیاسی ترجیحات، مصروفیات اور اس کے سیاسی کردار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘

لیزا ہینَل (م م / ا ا)

جرمن الیکشن میں پاکستانی نژاد خاتون امیدوار، مصباح خان

04:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں