ہیرے، بھارت اور اسرائیل کو قریب لانے کا اہم ذریعہ
3 جون 2022بھارت اور اسرائیل کے درمیان صرف ہیرے کی سالانہ قریب 1.5 ملین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ اسرائیل میں ڈائمنڈ ایکسچینج کی سب سے زیادہ بھارتی کمپنیاں پائی جاتی ہیں۔
اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے قریب اسرائیل ڈائمنڈ ایکسچینج کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بھارتی شہری پراوین کوکاڈیا بہت فخر سے قیمتی پتھروں کی نمائش کر رہے ہیں۔
کوکاڈیا کے ملک بھارت اور اسرائیل جہاں یہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، کے مابین قیمتی ہیروں کی وجہ سے اہم سفارتی اور اقتصادی روابط بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان صرف ہیروں کی سالانہ قریب 1.5 ملین ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔
کوکاڈیا سن 1996 میں پہلی مرتبہ اسرائیل آئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے یہاں اپنے خاندانی کاروبار کے مقصد سے باقاعدگی سے دورے کرنا شروع کر دیے۔ کوکاڈیا کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے جہاں دنیا کا نوے فیصد ہیرہ تراشا اور پولش کیا جاتا ہے۔
کوکاڈیا کا کہنا ہے، ''اس وقت میں بغیر پالش اور بغیر تراشے ہوئے چھوٹے سائز کے ہیرے کے پتھر خریدتا تھا کیوں کہ وہ سستے ہوتے تھے۔‘‘
اب 56 سالہ کوکاڈیا بڑے سائز کے پتھروں کی تجارت کرتے ہیں۔ سن 2003 میں ان کی اہلیہ اور دو بچے بھی ان کے ساتھ اسرائیل منتقل ہو گئے۔ کوکاڈیا کے مطابق اس وقت بھارت میں پتھروں کو تراشنے کے لیے لیزر مشینیں نہیں تھیں۔ اب کوکاڈیا اسرائیل اور بھارت دونوں میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔
اسرائیل ڈائمنڈ ایکسچینج میں بھارت تیس کمپنیوں کیساتھ اسرائیل میں ڈائمنڈ کی سب سے زیادہ کمپنیوں والا غیر ملک ہے۔
کوکاڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیادہ تر ڈائمنڈ کی تجارت کرنے والے خاندان رامت گان نامی شہر میں ڈائمنڈ ایکسچینج کے قریب ہی رہتے ہیں۔
بھارتی تاجروں کے لیے خصوصی درجہ
اسرائیلی ایمیگریشن وکیل جوشوا پیکس کے مطابق بھارت کے ڈائمنڈ کے تاجروں کو اسرائیل کی جانب سے خصوصی درجہ دیا گیا ہے۔ '' سن 2018 سے یہ اسرائیل میں غیر معینہ مدت تک کام کر سکتے ہیں اور رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ ان کے ویزے میں ہر تیسرے سال توسیع کی جاتی ہے دوسرے ممالک کے ہیروں کے تاجروں کے ویزے میں توسیع ہر دوسرے سال کی جاتی ہے۔
ڈائمنڈ ایکسچینج کے صدر بواز مولڈاوسکی کے مطابق ہیروں کی صنعت کی بھارت کے ساتھ تجارت اسرائیل اور بھارت کے درمیان ہونے والی تمام عمومی تجارت کا تقریباً 50 فیصد ہے۔
اسرائیل دنیا بھر سے قیمتی پتھر حاصل کرتا ہے اور بھارت کی کمپنیاں ان پتھروں کو تراشنے اور چمکانے کے کام میں مہارت رکھتی ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات
انڈیا نے سن 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا لیکن یہ روایتی طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اظہار کرتا ہے۔ بھارت نے سن 1992 تک یہودی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تھے۔
مولڈاوسکی کا کہنا ہے، ''ہیرے 1970 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان تبادلہ ہونے والی اولین اشیاء میں سے ایک تھے۔‘‘
جمعرات کو، اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گانٹز نے سرکاری سفارتی روابط کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت کا دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعلقات کو مزید گہرا کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، '' مل کر کام کرنے سے، ہم اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور دونوں ممالک کی سلامتی اور اقتصادی مفادات کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ‘‘ گینٹز نے اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات میں دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا تاکہ اسرائیل کی تکنیکی ترقی اور آپریشنل تجربے کو ہندوستان کی غیر معمولی ترقی اور پیداواری صلاحیتوں کے ساتھ ملایا جا سکے۔
مودی کے دورے حکومت میں تعلقات مزید مضبوط
2014 ء میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، ہندو قوم پرستوں نے اسرائیل کے ساتھ کئی بڑے معاہدوں پر اتفاق کیا ہے۔ اسرائیل بھارت کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان فروخت کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین پانی کے نظام، ذراعت، صحت اور شمسی توانائی کے شعبوں میں بھی تعاون کے معاہدوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیل انوویشن اتھارٹی کے مطابق، انوویشن اور ٹیکنالوجی میں تعلقات مزید قریب تر ہوئے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے غرض سے 40 ملین ڈالر کا انوویشن فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس سال کے آخر میں آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی بھی امید کی جا رہی ہے۔
ادھر ڈائمنڈ ٹاور میں، تین عمارتوں میں سے ایک جو اسٹاک ایکسچینج کمپلیکس ہے، میں ہیروں کے بھارتی تاجر رنجیت برمیچا اسرائیل اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات سے خوش ہیں۔
شمالی ہندوستان کے راجستھان سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ برمیچا 1979ء میں اسرائیل میں آباد ہونے والے پہلے ہندوستانیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے چھ میں سے پانچ پوتے اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں، اور برمیچا جو عبرانی بولتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔
ب ج، ک م (اے ایف پی)