1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رام نومی کا جلوس اور فرقہ وارانہ کشیدگی

19 اپریل 2022

ہندو دھرم کے اساطیری رزمیہ رامائن میں بھگوان رام کو صبر و شکر، فرمانبردار اور قربانی کی ایک مثال کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ روہنی سنگھ کا بلاگ

روہنی سنگھتصویر: Privat

ایک ایسا شخص، جو راج پاٹ کو تیاگ کرکے اپنے والد کے حکم کو پورا کرنے کیلئے 14سال جنگلوں اور بیابانو ں کی خاک چھانتا پھرے اور اسکے ماتھے پر شکن تک نہ آئے۔ مگر کیا کیا جائے، بچپن سے ہی میں نے دیکھا، کہ جب بھی بھگوان رام کے جنم دن یعنی رام نومی قریب آتی تھی، تو اسکول سے چھٹی کردی جاتی اور ایک عجیب تناو ٗ سا ماحول شہر میں پیدا ہوجاتا تھا۔ صبر و شکر کے اس پیکر کے جنم دن کو ہم آہنگی کے ساتھ منانے کے بجائے اس کے پیرو کار اس دن فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہو ا دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یعنی رام نومی کا جلوس اور فرقہ وارانہ کشیدگی لازم و ملزوم بنی ہوئی تھی۔

2014میں مرکز میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار  آنے  کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ عناصر کو شہہ اور کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ پچھلے ہفتے رام نومی کے جلوسوں کے درمیان ملک کی تقریباً چھ ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، گجرات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ہندوؤں نے الزام لگایا کہ جب انکا جلوس مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرا تب ان پر پتھراوٗ کیا گیا۔ مسلمانوں کا الزام تھا کہ کئی جگہوں پر جلوس کے شرکاء نے زبردستی مساجد کے میناروں پر ہندو مذہبی علامتیں اور زعفرانی جھنڈے لگائے۔ کئی ایسے ویڈیو بھی وائرل ہوگئے، جس میں جلوس کے شرکا ء اقلیتی فرقہ کے تئیں بدزبانی اور گالی گلوج کر رہے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اشتعال انگیز نعرے بلند کئے گئے۔ کرناٹک میں عثمانیہ مسجد کے باہر ”بنے گا مندر، توڑیگا مسجد" جیسے گانے سنائی دئے۔ ایک ہندو مہنت نے اتر پریش کے سیتا پور میں ایک مسلم محلہ میں ایک مسجد کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے، مسلم خواتین کی عصمت دری کی دھمکی دی۔

ہندو ں کا ایک طبقہ رام نومی کی مناسبت سے نو دن تک روزہ رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے روزہ کے برعکس اس میں پانی، میوہ جات، جوس وغیرہ سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ ہندو اس کی مناسبت سے گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس بار کئی جگہوں  پر ڈنڈوں اور جھنڈوں کے بل پر گوشت کی دکانیں بند کروائی گئی۔ ایک خوف عوام کے ذہنوں میں بٹھایا جارہا ہے، کہ بھگوان رام کے علاوہ اب بھارت میں کسی اور بھگوان کیلئے زمین تنگ ہو گئی ہے۔

صرف مسلمانوں کو ہی نہیں، بلکہ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں کو بھی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد نے نشانہ بنایا۔ دائیں بازو کی اس تنظیم نے رام نومی کے دن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں گوشت کھانے اور پکانے پر  احتجاج کیا۔ اس تصادم میں دو درجن سے زائد طلباء زخمی ہوئے۔ رام کے نام پر گوشت کھانے پر لوگوں کو نشانہ بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ رام نومی کے موقع کئی علاقوں میں ہندو جانوروں کی قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں اور ہر ہندو گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کرتا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے ذمہ داران بھگوان رام کے صبر و رواداری کے سبق کو بھول کر غصہ اور جارحیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ رامائن جیسی ضخیم کتاب میں بس ایک جگہ پر بھگوان رام کو غصہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب سمندر کے دیوتا نے ان کو  رامیشورم سے سری لنکا کے منار جزیرے تک سمندر کے اوپر پل بنانے سے منع کردیا تھا۔  ہندوؤں کا خیال ہے کہ بھارت کے جنوبی صوبہ تامل ناڈو اور سری لنکا کے درمیان، آدم پل جو قدرتی چونا پتھر کے ذخیرے سے بنا ہوا ہے، کو بھگوان رام اور ان کی فوج نے بنایا تھا۔

جب  سمندر کے دیوتا نے فوج کو راستہ دینے اور پل بنانے کی اجازت دینے  سے انکار کردیا، تو رام نے ناراض ہوکر سمندر کو آگ لگانے کیلئے اپنے ترکش سے تیر نکالے۔ رامائن میں یہ واحد واقعہ ہے،جہا ن بھگوان را م کو صبر کھوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دائیں بازو کی تنظیمیں ان کی دیگر خصوصیات کو طاق پر رکھتے ہوئے، بس اسی ایک واقعہ کو بھنا کر، صبر و شکر کے اس پیکر کو خفگی اور خشم آلود کی علامت کے بطور استعمال کرکے اقلیتی فرقہ کو نشانہ بناتی ہیں۔  وشو ہندو پریشد نے 1990کی دہائی سے ہی بھگوان رام کی رواداری کی تعلیم کے بجائے، خفگی کو فروغ دیا۔ اس مہم کے نتیجے میں ہی ہندو کارسیوکوں نے1992میں ایودھیا کے مقام پر بابری مسجد کو مسمار کیا اور اب اس جگہ پر ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر جاری ہے۔

میں تو حیران و پریشان ہوجاتی ہوں، کہ کیا یہ وہی بھگوان رام ہیں، جن کیلئے شاعر علامہ اقبال نے کہا تھا:

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

تلوار کا دھنی تھا شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا

کاش دائیں بازو کی تنظیمیں اور حکومت بھگوان رام کی پاکیزگی، جوش محبت، صبر و شکر اور قربانی، یگانگت، رواداری اور جیو اور جینے دو کے فلسفہ کو عام کرکے ملک کو 21ویں صدی کے چلینجز کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرواتیں۔

 شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔ 

روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں