’خواتین چست لباس نہ پہنیں‘: بینرز ہٹائے جائیں، عدالتی حکم
5 جولائی 2021
اسرائیلی شہر بیت شیمش میں خواتین کو چست لباس پہننے کے خلاف تنبیہ کرنے والے بینرز سے متعلق طویل تنازعے میں ملکی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالت نے ایسے تمام بینرز 90 دنوں کے اندر اندر ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
اشتہار
یروشلم سے پیر پانچ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی شہر بیت شیمش (Beit Schemesch) میں یہ موضوع گزشتہ کئی برسوں سے متنازعہ بنا ہوا تھا کہ خواتین کو کس طرح کا لباس پہن کر اس شہر کی سڑکوں پر آنا چاہیے۔ اس تنازعے کا سبب اس شہر کی سڑکوں اور عوامی جگہوں پر کئی برسوں سے لگائے گئے ایسے بینرز اور پلے کارڈز بنے، جن پر اب تک لکھا ہوا ہے کہ خواتین کو ایسا 'مہذب‘ لباس پہننا چاہیے، جو چست نہ ہو۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)
تصویر: Amir Cohen/REUTERS
10 تصاویر1 | 10
'عورتیں مذہبی مقامات سے بھی دور رہیں‘
ان بینرز اور پلے کارڈز کے ذریعے مقامی خواتین سے کئی برسوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ فٹ پاتھوں، یہودی عبادت گاہوں اور یہودی مذہبی اسکولوں سے دور رہیں اور مختصر یا چست لباس پہننے کے بجائے لمبے اور ڈھیلے ڈھالے ملبوسات پہنیں۔
ایسے بینرز کے خلاف 2013ء میں اسرائیل کے مذہبی ایکشن سینٹر نے ایک مقدمہ بھی دائر کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے اپنا فیصلہ 2017ء میں سنایا تھا، جس میں ایسے بینرز اور پلے کارڈز کو ناقابل قبول اور خلاف قانون قرار دے دیا گیا تھا۔
کٹر قدامت پسند یہودیوں کے ساتھ تصادم
2017ء میں عدالتی فیصلے کے بعد بیت شیمش کی بلدیاتی انتظامیہ نے جب ایسے بینرز اور بڑے بڑے سائن بورڈز ہٹانے کی کوشش کی تھی، تو انتہائی حد تک قدامت پسند مقامی یہودی آبادی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ تصادم شروع ہو گیا تھا۔
اس تصادم کے بعد شہر میں امن عامہ کی صورت حال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے بلدیاتی انتظامیہ نے ان بینرز کو ہٹانے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
مذہبی خواتین اپنا سر کیسے ڈھانپتی ہیں؟
اسلام، مسیحیت یا یہودیت، ان تمام مذاہب میں خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پردے کی غرض سے اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ ان مذاہب میں اس طرح کے پردے میں کیا مماثلتیں ہیں اور یہ خواتین ان مذہبی پابندیوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پردے کے پیچھے
’’ایسی مسلم خواتین، جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، وہ اپنے مذہبی عقائد کے باعث کٹھ پتلیاں نہیں ہیں‘‘، یہ کہنا ہے ترک ویڈیو آرٹسٹ نیلبار گیریش کا۔ سن دو ہزار چھ کی Undressing نامی اس پرفارمنس میں گیریش دکھاتی ہیں کہ ایک خاتون ایک کے بعد دوسرا پردہ اتارتی ہے اور ساتھ ہی اپنی فیملی کی مختلف خواتین کے نام بڑبڑاتی ہے۔ انہوں نے یہ پراجیکٹ نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافے کے ردعمل میں کیا تھا۔
تصویر: Nilbar Güres
جعلی بال
آنا شیتن شلیگر کا Covered نامی سیلف پورٹریٹ 2009ء میں منظر عام پر آیا، جس میں وہ دو مختلف وِگز پہنے ہوئی ہیں۔ کسی زمانے میں یہودی مذہبی خواتین اس طرح کی وگ کا استعمال کرتی تھیں۔ سترہویں صدی کے اختتام سے ان خواتین نے اپنے بالوں کے پردے کے لیے tichel نامی ایک خاص قسم کا اسکارف پہننا شروع کیا۔ کبھی ایسی وگز بھی فیشن میں رہیں، جو آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے scheitel نامی حجاب کا ایک بہترین متبادل تھیں۔
تصویر: Anna Shteynshleyger
ایک عقیدہ، مختلف مذاہب
مسلم خواتین مختلف قسم کے اسکارف یا حجاب لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کا مطلب کیا ہے؟ مخصوص قسم کا ہیڈ اسکارف دراصل ایک خاص مذہبی عقیدے اور ثقافتی پس منظر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کٹر نظریات کے حامل مسلمانوں میں ہیڈ اسکارف کو ایک اہم مذہبی جزو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
مذہبی اجتماعات میں سر کا پردہ
فوٹو گرافر ماریہ میہائلوف نے برلن میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا میں ہونے والی عبادات کو عکس بند کیا ہے۔ ان عبادات اور تقریبات کے دوران خواتین اپنے سر کو سکارف سے ڈھکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے، جو اب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا میں کم ہی دکھنے میں آتا ہے۔
تصویر: Marija Mihailova
بالوں میں ڈھکی ہوئی خاتون
لمبے، گھنے اور سیاہ بال عرب ممالک میں خوبصورتی کی علامت ہیں۔ یہی بات اس مجسمے میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویڈن کی ایرانی نژاد آرٹسٹ ماندانہ مقدم نے اپنے Chelgis I نامی اس مجسمے میں دکھایا ہے کہ اگرچہ بال عورت کی خوبصورتی کی علامت ہیں لیکن یہی بال ایک ایسا پردہ تخلیق کرنے کا باعث بنے ہیں، جس سے اس کی شناخت چھپ جاتی ہے۔
تصویر: Mandana Moghaddam
بال، صرف شوہر کی آنکھوں کے لیے
الٹرا آرتھوڈوکس یہودی روایات کے مطابق کسی خاتون کی شادی کے بعد اس کے بال صرف اس کا شوہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے شادی شدہ خاتون کو اپنے بال پردے میں رکھنا چاہییں، چاہے اس مقصد کی خاطر ہیڈ اسکارف پہنا جائے، مصنوعی بال(وِگ) استعمال کیے جائیں یا بالوں کو کسی اور طریقے سے ڈھانپ لیا جائے۔ یہ تصویر Leora Laor نے سن دو ہزار ایک میں یروشلم میں بنائی تھی، جس میں خواتین tichel نامی حجاب میں نظر آ رہی ہیں۔
تصویر: Leora Laor
مختلف تشریحات
یہودی خواتین کی یہ تصویر فیڈریکا والابریگا نے سن دو ہزار گیارہ میں نیو یارک کے قریب ایک ساحل سمندر پر بنائی تھی۔ اگرچہ ان تمام خواتین نے ہیڈ اسکارف پہن رکھے ہیں لیکن ان کے بال ان حجابوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عقائد تو بہت سے ہیں لیکن اس کا انحصار اس کے ماننے والوں پر ہے کہ وہ کس طرح ان کی تشریحات کرتے ہیں۔
تصویر: Federica Valabrega
بُرکینی سے پردہ
سمندر میں پیراکی کے دوران بھی اپنے عقائد سے وفادار رہنا؟ مغربی ممالک میں مقیم بہت سی مسلم خواتین کے لیے بُرکینی نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے کہ اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی کھلے آسمان تلے سمندر میں انجوائے کر سکتی ہیں۔ تاہم مغرب میں بھی کئی حلقے اس سوئمنگ سوٹ کو مسلم بنیاد پرستی کی علامت کے طور پر ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Jüdisches Museum Berlin/Yves Sucksdorff
8 تصاویر1 | 8
نوے دن کی مہلت
اب لیکن اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس دیرینہ تنازعے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بیت شیمش سے خواتین کے لباس سے متعلق خود ساختہ کوڈ کا تعین کرنے والے ایسے تمام غیر قانونی بینرز ہٹا دیے جائیں۔ اسرائیلی اخبار 'ہاریٹس‘ کے مطابق ملکی سپریم کورٹ کے ججوں نے شہر کی انتظامیہ کو ایسے تمام بینرز اور سائن بورڈز مکمل طور پر ہٹا دینے کے لیے 90 دن کی مہلت دی ہے۔
بیت شیمش کا موجودہ شہر یروشلم سے بذریعہ ریل تل ابیب جاتے ہوئے یروشلم سے کچھ ہی دور واقع ہے، جسے اسی نام کے قدیمی شہر کے قریب 1950ء میں نئے سرے سے بسایا گیا تھا۔ اس شہر کی موجودہ آبادی ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ہے۔
م م / ع ب (کے این اے، ہاریٹس)
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔